وسط اپریل میں پنجاب میں جہاں گندم کی فصل کی کٹائی شروع ہوتی ہے تو وہیں دیسی مہینے بیساکھ کا آغاز بھی ہوجاتا ہے، اسی مہینے میں راولپنڈی کے قریب قصبے حسن ابدال میں سکھوں کے موسمی تہوار بیساکھی کے میلے کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں، جس میں شرکت کیلئے بھارتی صوبوں پنجاب اور ہریانہ سے ہزاروں سکھ خصوصی ٹرینوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے ہیں، ایک بڑی تعداد امریکا، کینیڈا اور یورپ سے بھی آجاتی ہے۔
ماضی میں بیساکھی کا میلہ کسی خاص مذہب سے منسوب نہیں تھا، بڑے بوڑھوں کے مطابق 1947ء سے پہلے پنجاب کے تمام کسان مذہبی تقسیم سے بالا تر ہوکر گندم اور دیگر ربیع کی فصلوں کے کٹائی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے اور میلے منعقد ہوتے تھے، فصلاں دی مک گئی راکھی، جٹا آئی وساکھی، آئی وساکھی، انہی دنوں کے زبان زد عام نعرے ہوتے تھے۔
برصغیر کی تقسیم میں بننے والی بہت سی فلموں میں بیساکھی سے متعلقہ گیت ایک ضرورت سمجھے جاتے تھے مگر وقت بدلا تو یہ تہوار سکھوں کے مذہبی تہوار کا رتبہ حاصل کر گیا، اب اس کے میلے پنجاب کے کسی گاؤں یا قصبے میں نہیں لگتے۔
سکھ یہ تہوار اپنے گوردواروں پر مناتے ہیں۔حکومت پاکستان ان کے لئے خصوصی حفاظتی اور آمدورفت کے انتظامات کرتی ہے۔ان سکھوں کی میزبانی کے فرائض متروکہ وقف املاک بورڈ انجام دیتا ہے اور یہی بورڈ میلے کا بھی منتظم ہوتا ہے۔ اس بار بھی پاکستانی حکام نے میلے کے مہمانوں کی خاطر تواضع کے خصوصی انتظامات کئے ہیں۔ حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کی طرف سے ویزوں اور امیگریشن سے لے کر حفاظت تک کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ اس سال جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات بہت کشیدہ ہیں، سکھوں کی آمد بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ دو ہزارکے قریب سکھ یاتری خصوصی ٹرینوں کے ذریعے پاکستان پہنچے ہیں۔ جو بعد میں حسن ابدال میں بیساکھی میلے کی تین روزہ تقریبات گوردوارہ پنچہ صاحب منائیں گے۔ بیساکھی میلے کا آغاز گوردوارہ پنجہ صاحب میں “گرنتھ صاحب”کے پارٹ پڑھنے سے ہوتا ہے ۔مذہبی رسومات کے دوران یاتری گوردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں ۔سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے انکے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اوروہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ۔گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یاترہ پر نہ آسکے وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ تقریباب کے آخری دن بھوگ کی رسم اد ا کی جاتی ہے ۔سکھ یاتری بابا گورو نانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔گوردوارے کے اندر پرساد پکائے جاتے ہیں ۔
گوردوارہ پنجہ صاحب میں تقریبات سے فارغ ہوکر سکھ لاہور اور ننکانہ صاحب کا رخ کرتے ہیں، جہاں گوردواروں میں جانے کے علاوہ شاپنگ بھی کرتے ہیں، بیساکھی میلے پر آنے والے بہت سے سکھ یاتری اپنے ساتھ مختلف اشیاء خصوصاً کپٹرا، سلک اور ساڑھیاں وغیرہ لاتے ہیں جنہیں مقامی دکاندار اور گاہک خریدتے ہیں، اس طرح سکھ یاتری بھی اپنے عزیز و اقارب کیلئے پاکستان سے تحائف خریدتے ہیں، یوں لاہور کے انارکلی بازار اور دیگر تجارتی مراکز کے تاجروں کو ہر سال بیساکھی کا انتظار رہتا ہے۔
لاہور میں آنے کے بعد سکھ یاتریوں کی بھارت اور دیگر ممالک کو واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے، یوں بیساکھی کا رنگا رنگا میلہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔