جب چکن 25 روپے فی کلو بکا
تحریر: محمد لقمان
اپریل 2006 کی بات ہے۔۔۔ میں صبح سویرے اے پی پی کے دفتر جانے کی تیاری میں مصروف تھا۔ اسی دوران اپنی ملازمہ بلقیس کو کہتے سنا کہ اس نے پچیس روپے فی کلو کے حساب سے چکن خریدا ہے۔ میں ایک دم چونک گیا۔ ان دنوں بھی چکن کی سرکاری قیمت ڈیڑھ سو روپے فی کلو کے قریب تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا یہ مردہ مرغی کا گوشت تو نہیں تھا۔ تو اس نے پورے یقین سے بتایا کہ مرغی کو اپنے سامنے ذبح کروا کر خریدا ہے۔ میں دفتر پہنچا تو وہاں بھی مرغی کے سستے گوشت کا ذکر ہورہا تھا۔ پتہ چلا کہ برڈ فلو کی بیماری کے بارے میں افواہوں نے عوام کو چکن سے متنفر کردیا تھا اور پولٹری فارم مالکان کسی نہ کسی طرح اپنے شیڈز کو خالی کرنا چاہ رہے تھے۔ اور یہ سب کچھ گوشت کو انتہائی سستا کرکے ہی کیا جاسکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ پولٹری سیکٹر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر ایک فیچر لکھا جائے۔۔مگر اس کے لئے مستند اعداد و شمار کی ضرورت تھی۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے فون پر بات کی تو انہوں نے مجھے بگ برڈ کمپنی کے مالک عبدالباسط کے دفتر میں بلا لیا۔ عام طور پر بڑے خوش مزاج عبدالباسط کے چہرے پر پریشانی ھوید ا تھی۔ کہنے لگے کہ برڈ فلو یا طیوری زکام کی وجہ سے ابھی تک پاکستان میں کوئی انسانی زندگی نہیں گئی۔ مگر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر برڈ فلو کا بہت تذکرہ ہے اور ٹی وی چینلز تو بڑے مرچ مصالحے لگا کر عوام میں خوف و ھراس پھیلا رہے ہیں۔ ان کو فکر تھی کہ اگر اسی طرح عوام میں بے چینی بڑھتی گئی تو تیس ہزار کے قریب پولٹری فارمز بند ہو جائیں گے اور ستر ارب روپے کے قریب سرمایہ کاری بھی ڈوب جائے گی۔ اور ملک میں صرف گائے اور بکرے کا گوشت ہی محدود مقدار میں دستیاب ہوگا ۔ مٹن کی فی کلو قیمت تو تین ہزار روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ 2003 میں بھی برڈ فلو کی وبا اور اس کے بعد منفی خبروں کی وجہ سے پاکستان میں پولٹری کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ پاکستان میں 1960 سے پہلے صرف دیسی مرغی ہوتی تھی جس کو صرف گھر میں مہمان آنے یا مریض کے پرہیزی کھانے کے لئے پکایا جاتا تھا۔ یہ کمرشل پولٹری فارمنگ ہی تھی جس کی وجہ سے ہر پاکستانی کو مرغی کے گوشت تک رسائی ہوئی۔ دنیا میں پہلی مرتبہ برڈ فلو کی بیماری نہیں آئی تھی۔ تاہم 1997 سے پہلے برڈ فلو کسی انسان میں منتقل نہیں ہوا تھا۔ مگر ھانگ کانگ میں اس سال اس بیماری کی وجہ سے کچھ انسانی جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں برڈ فلو کی وبا آنے کے بعد پولٹری کی صنعت دباو میں آجاتی ہے۔ بعد میں اس بیماری کی ویکسین آنے سے صورت حال کافی بہتر ہو گئی ہے اور پرندوں کی اموات میں بھی کمی آگئی ہے۔