تحریر: محمد لقمان
دسمبر 2017 کی ایک دوپہر کی بات ہے کہ میں اچھرہ پل کے قریب لاہور کی نہر کی بھل صفائی کے عمل کی فوٹیج بنوا رہا تھا۔ کہ اک دم سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک نوجوان نے خشک نہر میں چھلانگ لگا دی۔ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا میرے پاس آیا اور پوچھا کہ ہم لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ شاید وہ شخص محکمہ آبپاشی سے ہے۔ میں نے اس کو بھل صفائی کے بارے میں سما ٹی وی کے لئے رپورٹ کے بارے میں بتایا۔ اس نے فوراً کہا کہ شاید میں اسے نہیں جانتا وہ دنیا ٹی وی میں سٹی رپورٹر ہے۔ میں نے اپنی جہالت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں واقعی اسے نہیں جانتا۔ تو اس نے کہا کہ وہ صحافت تو پارٹ ٹائم بنیادوں پر کر رہا ہے۔ اصل کام تو محکمہ آبپاشی کے لئے ٹھیکیداری ہے۔ لاہور کی نہر کے ایک حصے کی بھل صفائی کا ٹھیکہ بھی اس کے پاس ہے۔ جس سے اس کو لاکھوں روپے کا فائدہ ہوگا۔ صحافت تو وہ ایک شوق کے لئے کر رہا ہے۔ اس نوجوان نے بتایا کہ سما ٹی وی میں میرے کس کس باس سے اس کے ذاتی تعلقات ہیں۔۔۔ اور کن لوگوں کو وہ مالی فائدہ پہنچاتا رہا ہے۔ اس کے بعد وہ نہر سے نکلا تو ایک بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ وہ تو چلا گیا مگر مجھے وہ ایک لمبی سوچ میں چھوڑ گیا۔ اس وقت صحافت میں میرا 26 سال سے زائد عرصہ ہو چکا تھا۔ اس عرصے کا ایک ایک لمحہ میرے ذہن میں فلیش بیک کے طور پر آنے لگا۔ کئی مرتبہ کئی صنعتکاروں نے سائیڈ بزنس شروع کرنے کے لئے مجھے مدد کی پیشکش کی مگر اس کو اخلاقی اور پیشہ وارانہ طور پر ناجائز سمجھ کر انکار کیا۔ مالی فوائد کی اور طریقوں سے بھی آفر ہوئی مگر ان چیزوں سے اپنے آپ کو الگ رکھا۔ ایک معروف صنعتکار سے تو میں نے تقریباً 20 سال اس لیے ہاتھ نہیں ملایا کہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنی خبر اخبارات میں چھپوانے کے لئے رشوت دیتا ہے۔ کیا اب میرا عہد نہیں رہا۔ میں پریشان ہوگیا تھا۔ اس واقعے کے بعد میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو بغور دیکھا تو پتہ چلا کہ ان میں سے اکثریت کسی نہ کسی کاروبار میں مصروف تھی۔ کوئی اپنے دن کے کئی گھنٹے اسٹاک مارکیٹ میں گذارنے کے بعد ہی ہی دفتر آتا اور ایونٹ پر جانے کی بجائے دیگر رپورٹروں سے خبر لے لیتا۔ تو کسی کے پاس لاہور چیمبر کی ممبر شپ تھی۔ ٹی وی کی نوکری میں یہ بات ایک زمانے میں مجرمانہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ کئی لوگ اپنے جنرل اسٹورز اور دیگر کاروبار کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہیں ۔ اور اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے اپنی صحافتی ملازمت کو ایک پردہ کا نام دیتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس روپیہ پیسہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے دفتر میں حالات بھی ہمیشہ خوشگوار ہی رہتے ہیں۔ جب آپ کا ہر کسی کے لئے دستر خوان کھلا ہو تو جائے کار پر آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں۔ مشکلات تو ان کے لئے ہوتی ہیں۔ جن کا ذریعہ معاش صرف ایک ہو۔ سما کے دنوں کی بات ہے کہ ایک صاحب سردیوں میں ہر روز دو سے تین کلو تلی ہوئی مچھلی کے ساتھ دفتر میں داخل ہوتے اور سب کو یہ ڈش پیش کرتے۔ کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ ایک رپورٹر روزانہ دو سے تین کلو تلی مچھلی خرید کر دوستوں کو کیسے کھلا سکتا ہے ۔ ایک عام صحافی تو ہر روز اپنے خاندان کو ایک پاو مچھلی بھی نہیں کھلا سکتا۔ کسی نے اس سے کبھی بھی ایسا سوال نہیں کیا۔سب کھا لیتے تھے بلکہ اگلے دن کے لئے بھی فرمائش کردیتے تھے۔ یہ مسئلہ آج کا نہیں۔ کئی دہائیوں سے ایسا ہی چل رہا ہے۔معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح صحافت کے میدان کے اکثر شہہ سواروں کے دل میں بھی جنم جنم کی بھوک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزید پیسہ کمانے کے چکر میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے بھی بے وفائی کر جاتے ہیں۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے ایک صاحب موٹر سائکل پر رپورٹنگ کرتے تھے۔ مگر بعد میں مقامی حکومت اور ضلعی حکومتوں میں ٹھیکے لے لئے اور آج کل وی ایٹ جیسی قیمتی گاڑی میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اصل میں اداروں نے بھی کبھی اپنے ملازم سے نہیں پوچھا کہ ایسا کون سا نیا ذریعہ معاش پیدا ہوگیا ہے جس کے ذریعے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ بہت سارے اداروں میں تو وہ روایتی طریقہ ہی رائج ہے۔ جس کے تحت اپنا کھا آو اور ہمارا لے آو کے اصول کے تحت صحافی نوکری کرتے نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر کے صافتی اداروں میں کوڈ آف ایتھکس کے تحت کوئی صحافی کہیں سے کوئی تحفہ یا فائدہ نہیں لے سکتا ۔ مگر یہاں تو ہر کوئی ایسے مفادات لینا اپنا حق سمجھتا ہے۔ جو اخلاقیات کی بات کرے تو اسے بیوقوف اور سیدھا سادھا گردانا جاتا ہے۔
اگر صحافیوں کی عزت بحال کرانی ہے تو ایمانداری کے اصولوں کو دوبارہ اپنانا ہوگا۔ بصورت دیگر اخلاقی پاتال میں گرنے کا عمل جاری رہ سکتا ہے۔