سچ یہ بھی ہے۔۔۔۔جب لاہور لہولہان ہوا

0
364


تحریر: محمد لقمان
یکم ستمبر سال دو ہزار دس کی شام تھی۔رمضان کی اکیس تاریخ اور بدھ کا دن تھا۔ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ کمپنی نے لاہور کے ایجرٹن روڈ پر واقع اپنے دفتر میں کامرس رپورٹرز کے لیئے افطاری کا انتظام کیا ہوا تھا۔ ابھی افطاری کا آغاز ہی ہوا تھا کہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے سی این بی سی کے رپورٹر آصف علی خان کو دفتر سے فون آیا کہ یوم علی کے جلوس میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ فوراً کربلا گامے شاہ پہنچیں۔ آصف علی خان نے مجھے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیئے وہاں جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا صورت حال ہے۔ میں نے اپنے کیمرہ مین کو دفتر واپس بھیج دیا۔ اب دھماکے کے بعد افطاری کی خبر کے لیئے کوئی گنجائش بھی نہیں رہی تھی۔ میں آصف خان کے سی این بی سی کی گاڑی میں کربلا گامے شاہ سے تھوڑا سا آگے جائے وقوعہ پر پہنچا۔ وہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ سماء ٹی وی کی طرف سے شاہد حسین پہلے سے ہی موجود تھے۔ ان کے ساتھ کیمرا مین علی مجتبی تھا۔ یہ لوگ یوم علی کے جلوس کی کوریج کے لئے آئے ہوئے تھے۔جس پر کربلا گامے شاہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی خود کش حملہ ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ چونکہ دھماکہ تو ہو چکا ہے۔ اب اس کے بعد صرف ریسکیو آپریشن کی ہی کوریج کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں اندازہ تھا کہ ابھی مزید دہشت گردی بھی ہو سکتی ہے۔ اردو بازار کے موڑ کے قریب ہوتے ہوئے ہم تھوڑا سا آگے آئے تو ایک جھٹکا سا محسوس ہوا اور دھماکے کی آواز آئی۔ ایک دم لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ یہ دوسرا خود کش دھماکہ تھا دوسرے خودکش دھماکے میں تیس سے زایئد افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے۔ ایک دم ایمبولینسوں کی دوبارہ آوازیں آنے لگیں۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ میں اور آصف بڑی مشکل سے بچے تھے۔ کیونکہ جہاں دھماکہ ہوا ہم چند منٹ پہلے وہیں موجود تھے۔ ابھی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا یا جارہا تھا تو تیسرا دھماکہ بھی ہوگیا۔ ایک عجب صورتحال تھی۔ دفتر سے تقریباً تمام رپورٹرز اور کیمرہ مین کربلا گامے شاہ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ان دنوں بیورو چیف حبیب اکرم تھے۔ وہ بھی اینکر مہر بخاری کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ اس رات خبر نامہ اور پروگرام نیوز بیٹ بھی وہیں سے ہوا۔ مہر بخاری نے حبیب اکرم اور مجھ سمیت کئی رپورٹرز کو اپنے پروگرام میں ساتھ لیا اور واقعہ کے مختلف پہلووں پر بات کی۔ اینکر عارف بھٹی کا بھی تجزیہ لیا گیا۔اسی دوران ایک موقع پر جب کیمرہ مین علی مجتبی میرے ساتھ تھا تو ڈیسک سے حسن بلال عرف مائٹی کا فون آیا کہ کسی طرح کربلا گامے شاہ میں داخل ہوجاییں اور اندر کی صورت حال کی رپورٹنگ کریں۔ جب میں نے بتایا کہ صورت حال بہت خراب ہے۔تو کہنے لگے کہ علی مجتبی تو انہیں کے عقیدے کا ہے۔ اس کو کچھ نہیں کہیں گے۔ ڈیسک کی طرف سے ایسے عجیب و غریب مطالبا ت پر غصہ تو آیا مگر بعد میں اپنے آپ کو سمجھایا کہ ان کو اندازہ ہی نہیں کہ کربلا گامے شاہ کے باہر حالات کتنے خراب ہو چکے تھے۔ دہشت گردی کے واقعات کے بعد وہاں ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔ پولیس پر پتھراو ہونے لگا اور کئی افراد نے فائرنگ بھی کی۔ مشتعل افراد نے پولیس افسروں و اہلکاروں کو مارا پیٹا‘ پولیس‘ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور پرائیویٹ گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے بعد تھانہ لوئر مال کو بھی آگ لگا دی‘ تھانے کے اندر اور باہر کھڑی درجنوں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بھی لپیٹ میں آ گئیں۔ پولیس اہلکار بھاگ نکلے۔ مظاہرین کومنتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ بھی کی گئی۔ ایک عجب دیوانگی کا عالم تھا۔ ایک لاش کی صرف دو ٹانگیں ہی محفوظ رہی تھیں۔ عوام اس کو دہشت گرد کی ٹانگیں سمجھ کر جوتے مار رہے تھے۔ صورتحال قابو میں نہ آنے پر رینجرز کو بھی طلب کر لیا گیاتھا۔ پولیس کی طرف سے آنسو گیس کے گولے گر رہے تھے تو مظاہرین ان کو پھٹنے سے پہلے ہی پولیس کی طرف پھینک دیتے ۔ گیس کی وجہ سے سب کے سانس بند ہو رہے تھے۔ سب سے بری حالت محمد قربان کی تھی۔ جو تازہ تازہ ہی سماء ٹی وی کا حصہ بنا تھا۔ اس کے لیئے آنسو گیس کھانے کا پہلا تجربہ تھا۔ میرے سمیت کئی رپورٹرز نے لویئر مال تھانے سے آگے موجود ڈی ایس این جی کے اندر پنا ہ لی۔ گھر والوں کا ساتھ میرا رابطہ کئی گھنٹے سے منقطع تھا۔ اگر چہ میرا گھر ان دنوں اسلام پورہ میں انصاری روڈ پر تھا۔ مگر چند کلومیٹر فاصلے کے باوجود بھی اس میدان جنگ سے نکلنا آسان نہیں تھا۔ بالآخر رات کے بار ہ بجے کے قریب صورت حال بہتر ہوئی تو میں نے بیورو چیف حبیب اکرم سے گھر جانے کی اجازت مانگی ۔ جوں ہی میں اپنے گھر پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی بیوی بچے رونے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کو دھماکے کا پتہ چل گیا تھا اور دفتر فون کرنے پر انہں میرے کربلا گامے شاہ جانے کا بھی اندازہ ہوگیا تھا۔ مگر فون پر رابطہ نہیں ہو پایا تھا۔ وہ دن لاہور کی تاریخ میں بدترین خون ریزی کا دن تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here