سفرنامہ کشمیر۔۔۔۔قسط چار

0
592

زرعی صحافیوں کی تربیتی ورکشاپ

تحریر: محمد لقمان

پیر چناسی ، دو میل اور مظفر آباد کی سیر کراتے ہوئے ورکشاپ کے منتظمیں زرعی صحافیوں کو پڑھانا لکھانا بھولے نہیں تھے۔ پی سی ھوٹل کے ایک ہال میں ہر روز مختلف موضوعات پر لیکچر اور پریزینٹیشنز ہوتیں جن میں لاہور اور اسلام آباد سے بلائے گئے دو درجن کے قریب شرکا کو ہر قیمت پر شریک ہونا پڑتا۔ ناشتہ ختم ہوتے ہی سب اس ہال میں پہنچتے اور سہہ پہر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ اس ورکشاپ کے کلیدی مقرر پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل ، کے چیرمین ڈاکٹر غلام محمد علی تھے۔ پنجاب کے شہر ساہیوال سے تعلق رکھنے والے زرعی سائنسدان مسائل کو بڑے کھلے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اپنی صاف گوئی کی وجہ سے وہ سرکاری حلقوں میں زیادہ مقبول نہیں۔ جہاں انہوں نے مختلف شعبوں خصوصاً نقد آور اور غذائی فصلوں کی بہتری کے لئے کونسل کی کوششوں کو گنوایا تو وہیں وہ زرعی تحقیق کے شعبے کو درپیش مشکلات کا ذکر بھی کرتے رہے۔ جب انہوں نے کئی سرکاری اور دیگر اداروں نے پی اے آر سی کے ملک کے مختلف حصوں میں قائم تحقیقاتی مراکز کی زمین پر قبضے کی بات کی تو ہر کوئی حیران رہ گیا کہ اس اہم تنظیم کے وسائل پر کوئی دوسرا ادارہ کیسے قبضہ کرسکتا ہے۔ مگر اس مفاد پرستی کے دور ان کی ہر بات درست بھی لگتی تھی۔ جب ملتان اور بہاولپور کے اضلاع میں آم کے باغات کی جگہ پر ہاوسنگ سوسائٹیز بن سکتی ہیں تو زرعی ریسرچ اسٹیشنز کی زمین پر بھی کوئی قبضہ کرسکتا ہے۔ تین دن وہ ہمارے ساتھ رہے ۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی ان سے نئی بات سیکھ لے۔ میں اور منور حسن کئی مرتبہ ناشتے کی ٹیبل پر بھی ان سے زرعی تحقیق پر سوال کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہر سوال کا تفصیل سے جواب دیا۔ ڈاکٹر غلام محمد علی کے علاوہ کراپ لائف تنظیم سے تعلق رکھنے والے محمد عاصم نے زرعی بائیو ٹیکنالوجی کے بارے میں کئی پریزینٹیشنز دیں اور زرعی تحقیق کے اس شعبے میں نئی تحقیق کے بارے میں تفصیلا ً بات کی۔ رشید خان اور محمد شعیب نے بھی مختلف موضوعات پر لیکچر دیے۔ سب سے دلچسپ پریزینٹیشن زراعت کے شعبے میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال پر تھی۔ یہ بتایا گیا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ا ور ترقی پذیر ممالک میں ڈرون کے استعمال سے کیڑے مار ادویات کا کیسے موثر سپرے کیا جاتا ہے اور فصلوں کی کیسے دیکھ بھال کی جاسکتی ہے۔ گویا کہ ڈرون کا کام صرف لوگوں کو قتل کرنا نہیں بلکہ ا س کا مثبت استعمال بھی ہے۔ جو کہ مغربی دنیا میں بڑا عام ہے۔ پاکستان میں ابھی تک ڈرون کے زرعی استعمال پر کسی قسم کے قوانین بنائے نہیں گئے۔ یہ بھی ابھی تک طے نہیں ہوا کہ اس کی درآمد کیسے ہوگی۔ اتنی مہنگی ٹیکنالوجی کا استعمال ایک غریب کسان کیسے کر سکے گا۔ پنجاب حکومت والے ڈرون ٹیکنالوجی کے فروغ کی راہ میں وفاقی حکومت کی سست روی کو بڑ ی رکاوٹ گردانتے ہیں۔ دیکھیں کب تک پاکستان دیگر ایشیائی ممالک فلپائن اور بھارت کے تجربے سے سبق نہیں سیکھتا۔ ایک اور شعبہ جس پر آگاہی دی گئی وہ ڈیٹا جرنلزم تھا۔ یعنی اگر آپ کے پاس اعداد و شمار موجود ہیں تو ان کو خبر کے قالب میں کیسے ڈھا لا جا سکتا ہے۔ اور اگر اعداد و شمار نہیں موجود تو انہیں کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ڈیٹا مائننگ پر بھی لمبی گفتگو ہوئی۔ یہ ورکشاپ ہر لحاظ سے مفید رہی۔ خاص طور اسلام آباد کے صحافیوں مہتاب حیدر اور فیض پراچہ سے طویل عرصے کے بعد ملنے کا موقع ملا۔ مظفر آباد سے واپس آنے کے بعد سما ٹی وی کے لئے زراعت میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال پر ایک نیوز پیکج بنایا۔ جب وہ ایر ہوا تو سب نے بڑی دلچسپی کا اظہار کیا۔ میر ے علاوہ ایکسپریس نیوز کے آصف محمود نے بھی ورکشاپ کے دوران حاصل کیے گئے علم کی بنیاد پر کئی ٹی وی رپورٹس تیار کیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here