خار زار صحافت۔۔ قسط ایک سو سینتیس

0
443


مشرف دور ا ور بسنت کا تہوار
تحریر: محمد لقمان
لاہور میں میلہ چراغاں اور بسنت منانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی یہ بہار کی آمد کا نقیب سمجھے جاتے تھے۔ بسنت کے موقع پر لاہور کے علاوہ پنجاب بھر میں پتنگ بازی ہوتی تھی۔ اور لوگ گھر کی چھتوں پر چڑھ کر بو کاٹا کرتے تھے۔ مگر عموماً یہ پرامن تہوار تصور کیا جاتا تھا۔ جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لاء کے دور میں اگر چہ بسنت سمیت مختلف موسمی تہواروں کی سرکاری سطح پر حوصلہ شکنی ہوتی رہی۔ مگر اس کے باوجود اہل پنجاب اس کو مناتے ہی رہے۔ میں خود بھی بچپن میں خود سریش اور پسے شیشے کا برادہ تیار کرکے دھاگے کی ڈور تیار کرتا رہا ہوں۔ پتنگ اڑانا ہمیشہ ایک مزے کا مشغلہ ہوتا تھا۔ جنرل مشرف کے دور میں بسنت اور پتنگ بازی کو سرکاری طور پر منانے کا رواج چل پڑا تو اس کے ساتھ ہی خطرناک رجحانات بھی سامنے آگئے۔ ان میں سے ایک چھتوں پر چڑھ کر ہوائی فائرنگ اور کیمیکل لگی اور دھاتی ڈور کا استعمال تھا۔ یہ ڈور یا تو مقامی طور پر تیار ہوتی تھی یا بھارت سے اسمگل ہو کر آجاتی تھی۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ دو ہزار ایک میں لاہور کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ، ایف پی سی سی آئی کے زیر اہتمام سالانہ ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ کی تقریب تھی جس میں جنرل مشرف مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے۔ رات نو دس بجے تقریب ختم ہوئی تو پتہ چلا کہ صدر محترم بسنت منانے کے لئے اندرون شہر شاہی حمام جائیں گے۔جہاں پتنگ بازی اور کھانے پینے کا بھی پورا انتظام تھا۔ گویا کہ سرکاری سطح پر ایک حکمران کے شوق کو پورا کیا جا رہا تھا۔ صرف سرکاری میڈیا کو ہی کوریج کے لئے بلایا گیا تھا۔ میں نے فوری طور پر دفتر کو اطلاع دی جہاں سے ایک اور رپورٹر کو وہاں بھیجا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ سرکاری سطح پر ہونے والی تقریب کو رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہوگی۔ کیونکہ عموماً سرکاری میڈیا کو ان مواقع پر صرف ڈنر میں ہی شریک کیا جاتا تھا۔ باقی معاملات رپورٹ کرنے پر عوام میں اشرافیہ کا تاثر خراب ہوسکتا تھا۔ مذہبی طبقہ تو پہلے ہی اس تہوار کو ہندوانہ سمجھتا تھا۔ اس لیے اس کو منانے کی ہمیشہ سے مخالفت رہی ہے۔مشرف دور میں اس تہوار کا اہم ترین حصہ ‘بسنت نائٹ’ ہوتا تھا۔
سال 2000ء سے سرکاری سرپرستی کی وجہ سے بسنت کو منانا تقریباً ہر خاص و عام کے ضروری بن گیا تھا۔ رات سے پہلے لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام بڑھ جاتا۔ملک کے مختلف حصوں اور دیگر ممالک سے بھی لوگ لاہور کا رخ کرتے۔ پھر اس تہوار کو منانے کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی آگئیں۔ اندرون شہر کے لوگ تاجروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے مکانات کی چھتیں کرائے پر دے کر ایک ہی رات میں لاکھوں کی کمائی کرتے رہے ہیں۔ کئی کئی ہفتے پہلے ان چھتوں کے سودے ہوجاتے تھے ان چھتوں پر صرف لذتِ کام و دہن کا ہی اہتمام نہیں ہوتا، موسیقی اور دیگر چیزوں کا انتظام بھی ہوتا تھا۔
بسنت کے موقع پر مال روڈ، جیل روڈ، گلبرگ بلیووارڈ، فیروز پور روڈ اور دیگر اہم شاہرات پتنگوں کی شکل کے بورڈوں اور اشتہارات سے مزین کردیے جاتے۔۔
سال 2003ء میں بسنت کے موقع پر کوکا کولا نے 45لاکھ روپے اور پیپسی کولا نے 35 لاکھ روپے کی خطیر رقم اس طرح کے پروگرام اور شاہراہوں کو سجانے کے لئے عطیات کے طور پر دی۔
لیکن اس صحت مند کلچرل سرگرمی سے اشرافیہ تو بہت مزہ لیتے تھے۔ مگر بسنت کی رات اور بعد کے دنوں میں دھاتی ڈور سے شہ رگ کٹنے کے واقعات درجنوں میں دیکھنے میں آتے۔ بسنت کے دنوں میں چھتوں سے گر کر اور گاڑیوں سے ٹکرا کر مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہوتی تھی۔ اگر بعد میں پتنگ بازی پر پابندی لگا دی گئی مگر ڈور سے گردن کٹنے کے واقعات اب بھی عام ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here