آزاد پنچھی جب قید ہوا
تحریر: محمد لقمان
ٹسڈیک میں بلا شبہ تنخواہ اور دیگر سہولتیں اے پی پی کی نسبت کافی زیادہ تھیں۔ مگر وہ آزادانہ رویہ جو کہ بطور صحافی سترہ سال تک میری زندگی کا حصہ بنا رہا تھا، آہستہ آہستہ حدود و قیود کا شکار ہوگیا ۔ پبلک ریلیشنز آفیسر کی ذمہ داریوں میں صرف میڈیا کے لیئے پریس ریلیز ہی جاری نہیں کرنا ہوتا ۔ اس کے علاوہ ادارے کے سربراہ کے پرسنل اسٹاف آفیسر کے طور پر بھی کام کرنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ زندگی میں یہ پہلی نو سے پانچ نوکری تھی۔ اے پی پی بھی وزارت اطلاعات کا ذیلی ادارہ سمجھی جاتی تھی اور پی آئی ڈی سے تعلق رکھنے والے افسران بالا بار بار اس کا احساس دلاتے رہنے تھے۔ مگر اے پی پی لاہور میں ایک آزاد فضا میسر رہی تھی۔ جس میں سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ صحافتی ٹچ بھی موجود تھا۔ آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ مگر ٹسڈیک میں اپنے چھوٹے سے کیبن نما کمرے میں گھنٹوں بیٹھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ کمپیوٹر پر کوئی کتنا مسلسل کام کر سکتا ہے۔ رپورٹر کے طور پر ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر جانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ صبح لاہور چیمبر میں کوئی سیمنار میں شرکت کرتا تو سہہ پہر کو پرل کانٹینٹل یا آواری ہوٹل میں پریس کانفرنس مل جاتی تھی۔ صرف مالی وسایئل کی کمی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ جس کو دور کرنے کے لیئے ٹسڈیک میں آنا پڑا تھا۔ کئی مرتبہ اس وجہ سے بھی گھٹن ہوتی تھی کہ یہ کمپنی بنیادی طور پر انجینرز کا ادارہ تھی۔ اور میڈیا اور آئی ٹی کو سپورٹ کے شعبے سمجھا جاتا تھا۔ حقیقت میں میرے ساتھ وہی کچھ ہو رہا تھا جو کہ ہم اے پی پی میں آئی ٹی اور ٹیلیکام انجینیرز کے ساتھ کرتے آئے تھے۔ کبھی دادے کی تو کبھی پوتے کی۔ وقت بدلتے پتہ نہیں چلتا۔ لیکن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں تعلقات ہونے کی وجہ سے ایک فائر وال بھی دستیاب تھی۔ کوئی آسانی سے پنگا بھی نہیں کرتا تھا۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کے ماضی میں میڈیا کے ساتھ کوئی اچھا تجربہ نہیں رہا تھا۔ ان میں سے ایک کرنل (ریٹایئرڈ) سید انور پرویز تھے۔ ان کو ڈان اخبار کے ایک رپورٹر کی خبر کی وجہ پنجاب ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ کی نوکری کے دوران مشکلات آئی تھیں۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو اس رپورٹر کا بطور خاص ضرور ذکر کرتے۔ آٹھ ماہ کی ٹسڈیک میں ملازمت کے دوران مجھے کرنل صاحب کی بہت زیادہ سمجھ نہیں آئی۔ اگر کسی منصوبے میں کامیابی نظر آتی تو وہ سارے ہار اپنے گلے میں ڈال لیتے تھے۔ مگر ناکامی کی صورت میں کسی اور کو ڈھونڈ لیتے۔ یہی وجہ تھی کہ چیف ایگزیکٹو آفیسر سہیل احمد اکثر کہا کرتے کہ کرنل صاحب ذمہ داریوں کو ہاتھ سے ایسے پرے کرتے ہیں جیسا کہ کسی پنجابی فلم میں سلطان راہی اپنے ہاتھ سے دشمن کی بندوق سے آنے والی گولیوں کو پرے کرتا تھا۔ شروع میں میں نے سہیل صاحب کی اس بات کو مذاق ہی سمجھا۔ مگر جب ایسی صورت حال میرے ساتھ پیدا ہوئی تو ان کی یہ آبزویشن کافی حد تک درست لگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنرل مشرف کا دور ختم ہوا تو صرف سہیل احمد کو ہی نیب کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اور سینیر افسر جو بڑے مزے کی شخصیت تھے۔ وہ اسلام اختر صاحب تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور کم گو۔ میں نے ان کے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی۔ ان کو چونکہ ذیابیطس کا مرض تھا تو اکثر اس کی وجہ سے درپیش پریشانیوں کو بڑے مزاحیہ انداز میں بیان کرتے۔ میرا خیال ہے کہ آج کل وہ پاکستان سے باہر ملازمت کر رہے ہیں۔ ٹسڈیک کے قیام کی وجہ سے ایک شخص بری طرح متاثر ہوئے۔ وہ تھے سیمنٹ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رانا محمد منیر ۔ ٹسڈیک اصل میں اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن کی بلڈنگ میں قائم کی گئی تھی۔ ٹسڈیک نے رانا صاحب کے انسٹی ٹیوٹ کو ایسے کارنر میں لگایا تھا جیسا کہ ایک پرانی کہانی میں ایک اونٹ نے ایک عرب کو اس کے خیمے سے باہر نکال دیا تھا۔ بڑے پریشان پریشان رہتے تھے۔ بہرحال ٹسڈیک کے قیام کے بعد سیمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بھی سنی گئی اور اس کی ٹیکنالوجی بہتر بنانے کے لئے کافی کام ہوا۔ میری ہمیشہ کوشش رہی کہ ٹسڈیک کے مختلف شعبوں کی پروموشن کے ساتھ ساتھ سیمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کروں۔ پتہ نہیں اس میں کس حد تک کامیابی نصیب ہوئی۔