چھٹا مالیاتی ایوارڈ۔ مرکز اور صوبوں میں اتفاق نہ ہوا
تحریر: محمد لقمان
؎کسی بھی اقتصادی صحافی کے لیئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ پاکستانی جیسے وفاقی ملک کی اکائیوں میں وسایئل کی تقسیم کیسے ہوتی ہے۔۔۔انیس سو نوے کی دہائی میں اکانومی کی بیٹ ملی۔ جس کے بعد اب تک سینکڑوں بار وزارت خزانہ، صوبائی محکمہ خزانہ اور اس کے ذیلی اداروں سے متعلق خبریں دینے کے علاوہ وفاقی اور صوبائی و زرا سے ملاقات اور تقریبات کو کور کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ ہر دفعہ زیادہ تر بات وفاقی محاصل اور ان کی تقسیم کی ہی ہوتی تھی۔ وفاق کے اپنے شکوے تھے تو صوبوں کی اپنی شکایتیں۔
مگر صوبوں کے درمیان وسایئل کی تقسیم کے فارمولے کو پہلی دفعہ صحیح طور پر جاننے کا موقع سال دو ہزار چار میں ملا۔ جب چھٹے این ایف سی ایوارڈ کمیشن کی تشکیل کے بعد وفاق اور صوبوں کے وزراء اور حکام کے درمیان لاہور سمیت مختلف صوبائی دارالحکومتوں میں اجلااس ہویئے۔۔۔لاہور میں اجلاس عام طور پر مال روڈ کے ایوان وزیر اعلی جس کو عرف عام میں نائنٹی شاہراہ قائد اعظم کہتے ہیں، میں ہوتے تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت عزیز کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں پنجاب کے نوجوان وزیر خزانہ حسنین بہادر دریشک، این ڈبلیو ایف پی کے سراج الحق، سندھ سے سردار احمد اور بلوچستان سے احسان اللہ شریک ہوتے۔ حسنین بہادر دریشک چونکہ عمر میں ان وزرا سے بہت چھوٹے تھے بات کرتے ہوئے عموماً بہت جھجھکتے۔ جب کہ سراج الحق جو کہ آج کل جماعت اسلامی پاکستان کے امیر ہیں، کا لہجہ بہت زیادہ خطیبانہ ہوتا۔ سندھ کے وزیر خزانہ سردار احمد بھی اکثر سندھ کے کم وسایئل کے بارے میں رونا روتے رہتے۔ بلوچستان کے وزیر خزانہ احسان اللہ زیادہ تر خاموش ہی رہتے۔ لاہور میں ہونے والے این ایف سی کے ایک اجلاس کے بعد پریس کانفرنس ہوئی تو وفاق اور صوبوں کے درمیان کسی طور بھی کوئی اتفاق نظر نہیں آیا۔ اس کی وجہ تھی کہ وفاق بدستور آدھے سے زایئد وسایئل اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا جبکہ صوبے وفاق کا حصہ کم سے کم دیکھنا چاہتے تھے۔ اجلاس میں طے پایا کہ تمام صوبے اپنی اپنی پانچ سال کی ضروریات کے تخمینے وفاقی وزارت حزانہ میں قائم این ایف سی سیکریٹیریٹ کو مہیا کریں گے۔ جب صوبائی وزرا اپنے وسایئل میں اضافے کے مطالبہ کرچکے تو شوکت عزیز نے یقین دلایا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھایا جائے گا مگر کتنا یہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ اس کا حتمی فیصلہ تو جنرل مشرف نے ہی کرنا تھا۔ اسی طرح بلوچستان اور سندھ کے درمیان قدرتی گیس کی فروخت پر حاصل ہوے والے محصولات کے جھگڑے کا معاملہ بھی تھا۔ پن بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کے حوالے سے سرحد اور واپڈا کے درمیان تنازع بھی ان دنوں شدت پر تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ شوکت عزیر نے کہا کہ یہ مسئلہ فوری طور پر حل نہیں ہو سکتا۔
قصہ مختصر ، این ایف سی کے چوتھے ایوارڈ کے تحت وسایئل کی تقسیم کے لیئے کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی اجلاس ہوتے رہے مگر صوبوں میں وسایئل کی تقسیم پر واضح اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔ اس دور کے فوجی صدر جنرل مشرف کو اپنی طرف سے ایک فارمولہ دینا پڑا۔ پاکستان میں وفاق کی اکائیوں کے درمیان کی تقسیم ہمیشہ ہی ایک مسئلہ رہی ہے۔ انیس سو اکیاون میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان محاصل کی تقسیم کے لیئے ریزمین ایوارڈ کا اعلان ہوا۔ جس کا نوٹیفکیشن یکم اپریل انیس سو باون کو ہوا۔ اسی فارمولے کے تحت انیس سو اکسٹھ، انیس سو چونسٹھ اور انیس سو ستر میں بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان وسایئل کی تقسیم ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد انیس سو تہتر کا آئیں تشکیل دیا گیا تو قومی مالیاتی کمیشن بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ انیس سو چوہتر میں پہلا قومی مالیاتی ایوارڈ تشکیل دیا گیا ۔ جس کے تحت چاروں صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر کی گئی۔ مگر اب یہ تقسیم آباد ی کے علاوہ غربت اور دیگر کئی اور عوامل بشمول غربت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں آئین میں اٹھارھویں ترمیم نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب وفاق کی نسبت صوبوں کا وسائل میں حصہ کہیں زیادہ ہے۔