خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو چالیس

0
361


سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلی کا مشترکہ انٹرویو
تحریر: محمد لقمان
یہ آٹھ فروری دو ہزار تین کی بات ہے۔۔ ڈی جی پی آر سے شعیب بن عزیز صاحب کا اے پی پی لاہور فون آیا کہ پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی اور سندھ کے وزیر اعلی علی محمد مہر کا ایک ہی نشست میں مشترکہ انٹرویو کروانا چاہتے ہیں۔۔اس سلسلے انٹرویو پینل کے ارکان کے نام بھیج دیں۔ تین افراد۔۔۔بیورو چیف فیض الرحمان، مسرت حسین اور میرا نام ڈی جی پی آر کے دفتر بھیج دیا گیا۔ میں نے پولیٹیکل رپورٹنگ بہت کم کی ہے۔ میرا نام شاید اس لیے پینل میں شامل کیا گیا کہ ان قومی مالیاتی ایوارڈ کا معاملہ بھی چل رہا تھا۔ جوں ہی ڈی جی پی آر کو نام ملے تو اس کے کچھ دیر بعد فون آیا کہ ممکنہ سوالات کی لسٹ بھی بھیج دی جائے۔ میں نے ممکنہ سوالات کی ایک لسٹ تیار کی۔ ان سوالات میں ملک کی سیاسی صورت حال، صوبوں کے درمیان پانی اور وسایئل کی تقسیم ، صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات سمیت مختلف اشوز شامل تھے۔ ان سوالات کی پڑتال کے بعد ہمارے پاس سوالات کی فایئنل لسٹ آگئی اور اگلے دن انٹرویو کا وقت طے پا گیا۔ ایوان وزیر اعلی پہنچے تو شعیب بن عزیز اور ڈی جی پی آر کے اس وقت کے افسران نے ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھا دیا اور چائے سے تواضع کی۔ تھوڑی دیر کے بعد سندھ کے نوجوان وزیر اعلی علی محمد مہر اور پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی آگئے ۔ بالائی سندھ کے ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے چالیس سال سے بھی کم عمر کے علی محمد مہر بظاہر بہت سادہ دکھائی دیے۔ وہ سفید رنگ کی شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے۔ ان میں کوئی اکڑ دکھائی نہیں دی۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے چوہدری پرویز الہی ان سے یقینا بہت زیادہ تیز اور دنیا شناس تھے۔ مہر تو بہت کم بولتے رہے۔ انٹرویو سے پہلے حال چال بھی چوہدری پرویز الہی نے ہی پوچھا۔ گفتگو شروع ہوئی تو سوالات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ طے شدہ سوالات کے جوابات تو پہلے سے تیار کئے تھے۔ مگر جب ایک صحافی کے سامنے دو اہم صوبوں کے سربراہان حکومت موجود ہوں تو سوال سے ایک نیا سوال بھی نکلتا ہے۔ ڈاکٹر وقار چودھری تو طے شدہ دائرے میں ہی رہے۔ مگر میرے ذہن میں چوہدری پرویز الہی اور علی محمد مہر کی گفتگو سے غیر طے شدہ سوالات بھی آنے لگے۔ جن کو میں نے پوچھنا شروع کردیا۔ چوہدری پرویز الہی تو چکر دیتے رہے مگر علی محمد مہر نے ہر سوال کا جواب دینے کی حتی الامکان کوشش کی۔ اس موقع پر شعیب بن عزیز ان کی مدد کو آگئے اور کہنے لگے کہ آوٹ آف سلیبس سوال نہ ہی پوچھے جائیں تو بہتر ہے۔ مجھے یاد یہ میرے پوچھے گئے سوالات زیادہ تر وسایئل کی بین الصوبائی تقسیم اور نیشنل فائنانس ایوارڈ کے حوالے سے تھے۔ جن پر ان دنوں کام ہو رہا تھا۔ بحرحال ہمیں کہا گیا کی زیادہ تر ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں ہی پوچھا جائے ۔ ایک گھنٹہ کے قریب جاری رہنے والے انٹرویو کی بنیاد پر دفتر واپس آکر ہم تینوں نے مل کر خبر تیار کی۔ شعیب بن عزیز صاحب کا فون آیا کہ خبر کو اخبارات اور دیگر میڈیا کو جاری کرنے سے پہلے وہ اس کو دیکھنا چاہتے ہیں۔۔ اس بات کو ہم نے کسی طور پر ٹال دیا۔ بہر حال اگلے روز دونوں وزرائے اعلی کے مشترکہ انٹرویو کی خبر مختلف انگریزی اور اردو اخبارات کے فرنٹ پیج پر شائع ہوئی۔ مگر ڈی جی پی آر والوں کو اتنی بہتر کوریج کے باجود بھی گلہ تھا کہ خبر جاری ہونے سے پہلے ان کو کیوں دکھائی نہیں گئی۔ خبر کیوں نہیں دکھائی گئی۔ اس کی بہت سادہ وجہ تھی۔ ہمیں خطرہ تھا کہ اگر ہم خبر ان کو بھیج دیتے تو وہ پتلون سے نکر بن کر ہی واپس آنی تھی اور اس میں سے وہ ہر وہ چیز نکل جانی تھی جو اس کے چھپنے کی وجہ بنی۔ علی محمد مہر اس انٹرویو کے چند مہینے بعد ہی سندھ کی وزارت اعلی سے الگ ہو گیئے اور دوبارہ ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت عجیب و غریب باتیں بھی بعد میں سننے کو ملیں۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ مگر ان کی طبیعت کی سادگی اور کم گوئی بہت کم لوگوں میں ہی دیکھنے کو ملی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here