خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو پچیس

0
584

عمرے کا خواب کیسے حقیقت بنا
تحریر: محمد لقمان

یہ سال دو ہزار تین کے مہینے اپریل کی بات ہے کہ الائیڈ بینک کا ایک اشتہار اخبار میں آیا کہ بینک آسان عمرہ سکیم شروع کررہا ہے۔ جس کے تحت بغیر سود کے قسطوں پر چند سو پاکستانیوں کو سرزمین حجاز لے جایا جائے گا۔ فی کس خرچ تینتیس ہزار روپے بتایا گیا تھا اور یہ رقم بھی تقریباً بارہ قسطوں میں وصول کی جانی تھی۔ یہ اشتہار میری نظر سے تو نہ گذرا۔ مگر مجھے فیصل آباد سے میرے سسر کا فون آیا کہ پتہ تو کرو کہ شرایئط کیا ہیں۔ میں نے اپرمال پر واقع الائیڈ بینک کے ریجنل آفس میں کسٹمر ریلیشنز آفیسر محمد کاشف کو فون کیا تو انہوں نے مجھے تمام تفصیلات فراہم کردیں۔ ہر شخص کو درخواست کے ساتھ دس فی صد ایڈوانس دینا تھا اور باقی رقم کی ادائیگی قسطوں میں ہونی تھی۔ بینک سے قرضہ لینے کے لئے مکان یا کسی اور جائداد کے ملکیتی کاغذات بینک میں جمع کروانے ضروری تھے۔ میرے سسر اور ساس تو عمرے کے لئے قسطیں جمع کرانے کو تیار تھے۔ مگر ہم دونوں میاں بیوی کی ماہانہ چار ہزار روپے کی اقساط ادا کرنا ناممکن ہی نظر آرہا تھا۔ تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ قسطیں ادا کرنے کے بعد گھر کے دیگر اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ گھریلو دباو میں آکر بالآخر الائیڈ بینک اپر مال میں درخواست جمع کروادی۔ چار افراد کی درخواست کا میں پرنسپل امیدوار تھا۔ ایک پانچویں فرد نے بھی ہمارے ساتھ جانا تھا۔ وہ ہمارا شیر خوار بیٹا عبیدالحنان تھا جس کی اس وقت عمر پونے دو برس کے قریب تھ۔ اور اس کا عمرے کا خرچہ صرف تین ہزار تین سو روپیہ تھا۔ ملک بھر سے ہزاروں افراد نے آسان عمرہ سکیم کے لئے درخواست جمع کروائی۔ خوش قسمتی سے میری درخواست قرعہ اندازی نکل آئی۔ اور یوں عمرے کے لئے تیاریاں شروع کردی گئیں۔ ابتدائی رقم کی درخواست کے ساتھ ادائیگی کرنے کے بعد چار افراد کے لئے بینک نے بہتر ہزار روپے کا قرضہ منظور کیا تھا۔ اور اس کے عوض مجھے اس وقت اپنے پندرہ لاکھ روپے کے گھر کی رجسٹری بینک میں جمع کروانا پڑی۔ اور ہر ماہ کے لئے پوسٹ ڈیٹڈ چیک بھی بینک کے حوالے کردیے تھے۔ درخواست جمع کروانے کے بعد ایک عجب پریشانی شرو ع ہوگئی تھی کہ بینک کا قرضہ کیسے اتار سکوں گا۔ ایک شام اسی فکر میں غلطاں اے پی پی لاہور کے دفتر میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔ کہ مجھے آفس بوائے نے بتایا کہ دو نوجوان مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اور نیچے آفس کینٹین پر موجود ہیں۔ میں ان سے ملنے کینٹین پر گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ نوائے وقت کے کامرس رپورٹر احسن صدیق کے حوالے سے آئے ہیں۔ وہ ورچوئل یونیورسٹی کے لئے آئی ٹی کے مضمون کے لیکچر تیار کرتے ہیں۔ چونکہ وہ دونوں سافٹ ویر انجینیر ہیں اور ان کی انگریزی واجبی سی ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ کوئی شخص ان کی تحریر میں بہتری پیدا کردے۔ ان میں ایک نوجوان جن کا نام ناصر تھا ،نے مجھ سے پوچھا کہ ایک لیکچر کی گرامر کی غلطیاں دور کرنے کا کیا معاوضہ لیں گے تو میں نے کہا کہ ایک ہزار روپیہ لوں گا۔ تو وہ فوری مان گئے۔ یوں ہمارا ایک معاہدہ ہوگیا۔ ہر ہفتے ای میل کے ذریعے دو لیکچر آنے لگے۔ جن کی میں پروف ریڈنگ کرکے واپس ان کو بھیج دیتا۔ یوں مہینے کی چار ہزار روپے کی اضافی ضرورت کے بدلے خدا نے ہمارے لیے آٹھ ہزار روپے کا انتظام کردیا تھا۔ میں نہ تو قدرت اللہ شہاب ہوں اور نہ ہی ممتاز مفتی کی طرح کا صوفی ہوں۔ مگر قدرت کی طرف اس مجبوری کے عالم میں میرے جیسے شخص کے لیئے خدا نے وسائل پیدا کردیے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جونہی عمرے کے لئے بینک کی قسطیں ختم ہوئیں۔ ناصر اور اس کا پارٹنر بھی ایک جاب کے سلسلے میں آسٹریلیا منتقل ہوگئے۔ گویا کہ ہمارے عمرے کے لئے اللہ تعالی نے ان دو نوجوانوں کے ذریعے وسیلہ پیدا کیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here