کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں
تحریر: محمد لقمان
صدر مملکت بننے کے بعد فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کا یہ تکیہ کلام بہت عام تھا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔ میڈیا کے ساتھ گفتگو ہوتی یا پبلک میٹنگ سے خطاب ، پرویز مشرف جب مخالف سیاستدانوں پر تنقید کرتے تو ساتھ ہی ملک میں روشن خیالی اور اعتدال کے فروغ کے لئے اپنی کوششوں کا ضرور کرتے۔ ان کے خیال میں جو بھی لوگ ان کی حکومت پر تنقید کرتے تھے ، اصل میں ملک اور معاشرے میں ناامیدی پیدا کرتے تھے۔ کسی بھی آمر مطلق کی طرح ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، وہیں صحیح ہے۔ رہی سہی کسر ان کے اردگرد موجود سول اور ملٹری بیوروکریسی نے پوری کردی تھی جو کہ ان کی آنکھیں اور کان بن چکے تھے۔ ان کا جو جی چاہتا وہ صدر مشرف کو سناتے اور اپنی خواہشات کے مطابق ہی صورتحال دکھاتے اس کی وجہ سے انہوں نے تقریباً ہر شعبہ زندگی کے لوگوں سے مخاصمت مول لے لی تھی۔ اور ایک ہی وقت میں مختلف محاذ کھول لیے تھے۔ مغرب نواز افغان پالیسی کی وجہ سے طالبان کو دشمن بنایا تو مذہبی گروہوں کے بارے میں اپنے خاص نظریات کی وجہ سے لال مسجدجیسے سانحات کو بھی جنم دیا۔ ایک نیا محاذ بلوچستان کا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے فوجی انقلاب کے کچھ عرصے بعد ہی بلوچستان میں بدامنی کی صورت حال پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ پنجاب اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا اب بلوچستان میں چین سے رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ انہی دنوں اے پی پی کے ایک ایم ڈی لاہور بیورو آئے اور میرے ساتھ گفتگو میں پوچھا کہ کبھی کوئٹہ میں پوسٹنگ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ بلوچستان میں کبھی پوسٹنگ نہیں رہی۔ تو کہنے لگے کہ یار ایک صوبے کے بیوروچیف بننے میں کیا مضائقہ ہے۔ میں نے بڑے ادب سے منع کردیا ۔ میرے مطابق تو یہ بات آئی گئی ہو گئی تھی۔ مگر ان صاحب کے دل میں یہ بات ابھی بھی موجود تھی۔ کچھ دن کے بعد بیورو چیف لاہور سے ایم ڈی نے اسی بابت کی ۔ جس کا انہوں نے میرے سے ذکر کیا۔ اس بار میں نے سختی سے انکار کردیا۔ کیونکہ ان دنوں بھی بلوچستان میں پنجاب سے جانے والا عموماً جاتا تو ہوائی جہاز سے تھا۔ مگر واپسی اخبار میں ہی ہیوتی تھا۔ خیر قصہ مختصر صورت حال جیسی بھی تھی ۔ ابھی بغاوت والی صورت حال نہیں تھی۔ ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ ریپ کے واقعے کے بعد صورت حال بہت خراب ہوگئی۔ مظلوم کو تو انصاف نہیں ملا مگر طاقت ور مجرم کو معصوم قرار دے دیا گیا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر بلوچستان میں مرکز مخالف سرگرمیوں کو ہوا دی گئی۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاست دان نواب اکبر بگٹی کو جولائی 2006 میں مار دیا گیا۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا تھا ۔ ریشم کے کیڑے کی طرح ان کو سیکورٹی کے کوکون میں بند کردیا گیا۔ وہ لاہور یا کسی شہر میں آتے تو ایک ہی شکل کی کاروں کے دو یا تین قافلے نکلتے۔ جن میں سے کسی ایک قافلے میں صدر مملکت ہوتے تھے۔ اب وہ زبانی حد تک تو کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے۔ مگر اندر سے ڈرنا شروع ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر 2006 سے اپریل 2007 تک جنرل پرویز مشرف نے زیادہ تر وقت اسلام آباد کی بجائے لاہور میں گذارا۔ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیٗر سے پاکستانی صدر کی ملاقات لاہور کے گورنر ہاوس میں ہوئی۔ وہیں پر مشترکہ پریس کانفرنس کی گئی۔ مختلف شہروں کے لئے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح بھی لاہور کے گورنر ہاوس میں ہی ہوتا رہا۔ اپریل 2007 کے وسط میں جنرل مشرف لاہور کی بجائے اسلام آباد میں نظر آنے لگے۔