خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو اکتالیس

0
323


سفارتی صحافت
تحریر: محمد لقمان
اے پی پی کی اسلام آباد میں ٹریننگ کے دوران ہی ڈپلومیٹک رپورٹنگ کا آغاز ہوگیا تھا۔ کویت پر عراقی قبضے کے بعد جنوری انیس سو اکیانوے میں کویت کے سفیر ابراہیم یاقوت نے اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پریس کانفرنس کی۔ اس کی کوریج کرنے والے اے پی پی کے رپورٹرز میں بندہ ناچیز بھی شامل تھا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ کویتی سفیر کی اہلیہ بدریہ یاقوت بھی وہاں موجود تھیں۔ اس کے بعد میری ٹرانسفر لاہور کردی گئی۔ جہاں جب بھی کوئی بین الاقوامی سیمینار یا کانفرنس ہوتی تو مجھے کور کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا۔ انیس سو ترانوے میں اسلام آباد میں او آئی سی کی بوسنیا پر ہونے والی وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی کوریج کے لئے میں اے پی پی لاہور کے بیورو چیف مرحوم سلیم بیگ کے ساتھ اسلام آباد پہنچا۔ اور اسلام آباد ایرپورٹ پر مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر میں نے شجاع الدین قریشی کے ساتھ مل کر ان کے انٹر ویو کیے۔ اس کے بعد سب سے بڑا واقعہ انیس سو ننانوے میں اٹل بہاری واجپائی کا دورہ لاہور تھا۔ واہگہ سے گورنر ہاوس تک تمام تقریبات میں اے پی پی کوریج ٹیم کا میں حصہ رہا۔ انٹرنیشنل ریلشنز میں ماسٹرز ڈگری کی وجہ سے خارجہ پالیسی کے اشوز کو سمجھنا میرے لیے ہمیشہ آسان رہا۔ میرے سینئر سید فواد ہاشمی ہمیشہ غیر ملکی سفارت کاروں کے فنکشن کی کوریج کے لئے مجھے نامزد کر تے یا اپنے ساتھ ایسے ایونٹس پر لے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے لاہور کے امریکی قونصل خانے، برٹش کونسل اور ایرانی قونصل خانے کے ساتھ نوے کی دہائی اور سال دو ہزار کے بعد بھی اچھے تعلقات رہے ہیں۔ جب بھی ان کے ممالک کا سفیر یا وزیر آتا، مجھے کوریج کی دعوت مل جاتی۔ لیکن ڈپلومیٹک رپورٹنگ کا مجھے زیادہ موقع خورشید محمود قصوری کے وزیر خارجہ بننے کے بعد ملا۔ ان کا چونکہ لاہور سے تعلق تھا تو اس لیے ہفتے میں کئی مرتبہ ان کی ملاقاتیں اسٹیٹ گیسٹ ہاوس ، گورنر ہاوس یا ان کے گھر پر غیر ملکی شخصیات سے ہوتیں اور کوریج کے لئے عموماً مجھے ہی اے پی پی کی طرف سے بھیجا جاتا۔ ایک دفعہ اسپین کی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر آئیں تو ان کی ملاقات وزیر خارجہ قصوری سے ان کی گلبرگ مین بولیوارڈ کی رہائشگاہ پر ہوئی۔ ایک گھنٹے سے زائد ملاقات میں سرکاری میڈیا کی طرف سے میرے علاوہ پی ٹی وی کا کیمرہ مین اور پی آئی ڈی کا ایک افسر تھا۔ میں نے بڑی احتیاط سے دونوں وزرائے خارجہ کی گفتگو کی بنیاد پر خبر تیار کی جو کہ بعد میں انگریزی اور اردو اخبارات میں شائع ہوئی اور پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئی۔ خورشید محمود قصوری بڑے خوش لباس شخصیت ہیں۔ سردی ہو یا گرمی وہ ہمیشہ اچھی تراش خراش کے سوٹ میں ہی نظر آٹے۔ سوٹ کے ساتھ ایک خوبصورت ٹائی لگانے کے بھی شوقین تھے۔ میں نے انہیں بہت کم شلوار قمیض میں دیکھا ہے۔ تصور یہی تھا کہ شاید وہ سوتے بھی سوٹ میں ہیں۔ جتنے وہ خوش لباس تھے۔ اتنے ہی ان دنوں وہ وہمی بھی تھے۔ کسی بھی اجلاس میں ان کی خواہش ہوتی تھی کہ شرکا کی گفتگو سرکاری میڈیا بھی سن نہ سکے۔ اس لیے اکثر اسٹیٹ گیسٹ میں میٹنگ روم سے ایک آدھ کمرہ دور سرکاری میڈیا کے ارکان کو بٹھایا جاتا۔ میٹنگ کے بعد وزارت خارجہ کا کوئی افسر بریفنگ دیتا جس میں بہت سارے خلا ہوتے۔ مگر میر ی خبر ہمیشہ مکمل ہوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میرے پاس ٹیلی پیتھی کا علم تھا۔ بلکہ خورشید محمود قصوری کی اونچی آواز میں بولنے کی عادت میرے لیے مکمل نوٹس لینے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔ کئی مرتبہ جو بات آہستہ بھی کہنے کی کوشش کرتے تھے وہ میرے کانوں میں پہنچ جاتی تھی۔ وہ اجنبی لوگوں پر بہت کم اعتماد کرتے تھے۔ اس کا تجربہ مجھے نواز شریف کے دوسرے دور میں ہوا۔ ایک دفعہ افواہ اڑی کہ یہ مسلم لیگ ن چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام آباد ھیڈ آفس سے ہدایت جاری ہوئی کہ خورشید محمود قصوری سے ملاقات کرکے ان کا موقف لینا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک خبر بنانی ہے۔ ان سے ملاقات کے لئے وقت مانگا تو انہوں نے ہمیں اگلے دن تک انتظار کا کہا۔ اور پھر پوچھا کہ کون کون ان کا انٹرویو کریں گے۔ میرے چیف رپورٹر فواد ہاشمی نے اپنا اور میرا نام لیا۔ اسی دوران شام کو ڈان اخبار سے اشرف ممتاز صاحب کا فون آیا ۔ انہوں نے بتایا کہ خورشید قصوری نے ہمارے کوائف کی تصدیق کے لئے ان سے رابطہ کیا ہے۔ اگلے دن ہمیں خورشید محمود قصوری کے دفتر سے فون آیا اور یوں ہماری ملاقات ہو سکی۔ یہی صورت حال ان کے وزارت خارجہ کے دور میں بھی رہی۔ ان کے دور میں لاہور میں جو سربراہان مملکت آئے ان میں ایران کے صدر سید محمد خاتمی، سعودی ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز، پرنس چارلس اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر تھے۔ اسٹیٹ گیسٹ ہاوس میں ایرانی صدر کے دورہ لاہور کے موقع پر اسٹیٹ گیسٹ ہاوس میں میڈیا سے گفتگو کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات پر بہت بات ہوئی۔ اس موقع پر میں ایرانی صدر خاتمی سے کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور ایران کی پالیسی کے بارے میں سوال کیا تو مترجم سے فارسی میں ترجمہ سننے کے بعد مسکرائے اور چپ رہے۔ بہر حال اس دور میں لاہور کے صحافیوں کو سفارتی صحافت سیکھنے کا بہت موقع ملا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here