خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو اٹھارہ

0
555


ریفرنڈم: مشرف کے اقتدار کو مزید پانچ سال کا دوام مل گیا
تحریر: محمد لقمان

بالآخر بیس اپریل دو ہزار دو یعنی ہفتے کا دن آگیا۔۔۔ اس دن ہونے والے ریفرنڈم میں فوجی حکمران صدر جنرل پرویز مشرف کو مزید پانچ سال عہدہ صدارت پر برقرار رہنے کے لئے عوام سے رائے کے اظہار کا کہا گیا تھا۔ اس سے پہلے ہی مختلف اخبارات میں کئی سروے چھپوائے گئے تھے۔ جن کے مطابق سڑسٹھ فیصد پاکستانی عوام پرویز مشرف مشرف کو مزید پانچ سال کے لئے صدر دیکھنا چاہتے تھے۔ ریفرنڈم سے ایک ہفتہ پہلے لاہور اور کراچی میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں لوگوں نے پرویز مشرف کے حق میں نعرے بازی کی۔ گویا کہ جہاں جمہوری قوتیں ملک میں آمریت کا خاتمہ چاہتی تھیں۔ وہیں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنے اپنے مفاد کے لئے مشرف کی حمایت بھی کر رہے تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا اور عوام سے بھی پولنگ میں حصہ نہ لینے کی اپیل کی تھی۔ مگر کئی جماعتیں ایسی بھی تھیں جو مشرف کی حمایت میں مہم چلا رہی تھیں َ۔ سابق صدر فاروق احمد لغاری کی ملت پارٹی، مولانا طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک، نوزائدہ پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم، جمیعت العلمائے پاکستان (نیازی) اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اس معاملے میں آگے آگے تھیں۔ مشرف نے لاہور کے اقبال پارک میں ریفرنڈیم سے پہلے جلسہ کیا اور اعلان کیا کہ اکتوبر میں نئے انتخابات کروائے جائیں گے۔ ریفرنڈیم کی کوریج کے لئے اے پی پی لاہور نے تفصیلی انتظامات کیے تھے۔ مختلف علاقوں میں رپورٹرز کو بھیجا گیا۔ میں اور چیف رپورٹر سید فواد ھاشمی جنوبی لاہور کے مختلف علاقوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز پر گئے ۔ جہاں عمومی طور پر بہت کم لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے آئے تھے۔ گرین ٹاون میں ایک پولنگ اسٹیشن پر پہنچے تو فواد ہاشمی صاحب کہنے لگے کہ کیوں نہ ووٹ ڈالنے کا تجربہ کریں۔ ہم دونوں پولنگ اسٹیشن کے اندر گئے۔ پولنگ اسٹیشن بالکل سنسان تھا۔ پریزائڈنگ آفیسر سے اپنا تعارف کروایا اور پوچھا کہ اب تک کتنے لوگ ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں اور جواب ملا کہ دس یا بارہ۔ ہم نے پوچھا کہ ہمارے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں۔ کیا ہم ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ تو پریزائڈنگ آفیسر نے کہا کہ آپ ووٹ ڈالیں شناختی کارڈ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نے ہمیں بیلٹ پیپرز دیے۔ جن پر ہم نے مہر لگا کر باکس میں ڈال دیا۔ شام کو جب رزلٹ آیا تو حکومت کی جانب سے پچاس فیصد سے زائد ٹرن آوٹ ظاہر کیا گیا۔ جو کہ آزاد ذرائع کے مطابق پانچ سے دس فیصد سے زائد نہیں تھا۔ ان ووٹوں میں سے بھی ستانوے فیصد نے مشرف کو مزید پانچ سال صدر پاکستان رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ ریفرنڈم بھی انیس سو چوراسی میں جنرل ضیاالحق کی طرف سے کرائے گئے ریفرنڈم کی طرح ہی تھا۔ جس کے دوران فیصل آباد میں ایک پولنگ اسٹیشن میں میرے بڑے بھائی پریزائڈنگ آفیسر تھے۔ انہوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ جب باکسز میں بہت کم ووٹ پڑے تو باہر سے کچھ خاص لوگ آئے اور انہوں نے باکسز کو مکمل بھر دیا۔ اقتدار کو طول دینے کی خواہش کی تکمیل میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بیس اپریل کے ریفرنڈم کے نتائج میں جنرل مشرف نے ملک کے آئین میں اپنے اقداما ت کو تحفظ دینے کے لئے اگست دو ہزار دو میں لیگل فریم ورک آرڈر کا نفاذ کیا۔ جس کے تحت اکتوبر میں پاکستان میں عام انتخابات ہونے تھے۔ ان انتخابات میں شرکت کے لئے میاں اظہر کی سربراہی میں کنگز پارٹی، قاف لیگ کو پوری طرح تیار رہنے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ پاکستان کی آئینی تاریخ میں انیس سو ستر میں جنرل یحیی خان کے لیگل فریم ورک آرڈر کے بعد دوسر ا لیگل فریم ورک آرڈر تھا۔ اس کی بنیاد پر انیس سو ننانوے میں معطل کیے گئے آئین کو بحال کیا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here