خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو انیس

0
639


مشرف اور آزاد میڈیا
تحریر: محمد لقمان
ؑؑعموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستانی میڈیا کو بے انتہا اور بے لگام آزادی ملی۔ اور سیٹلایئٹ ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ کارگل جنگ ، بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور آگرہ مذاکرات کے دوران سرحد پار کے ٹی وی چینلز نے مقامی ا ور بین الاقوامی رائے عامہ کو بھارت کے حق میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس سے متاثر ہو کر پاکستان کے فوجی حکمران نے بھی سیٹلایئٹ ٹی وی چینلز کے فروغ کے لیئے کام کیا۔ تاکہ پی ٹی وی کے ساتھ ساتھ نجی ٹی وی چینلز بھی رائے عامہ کی ہمواری کے لئے کام کریں۔ لیکن اس سے بڑا عامل جولائی دو ہزار ایک میں جنرل مشرف کا دورہ بھارت تھا۔ جس کے دوران انہیں نئی دہلی اور آگرہ میں قیام اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مذاکرات کے دوران سرکاری ٹی وی دور درشن کے علاوہ بیسیوں بھارتی نجی سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کے لوگوز اور مائک کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ان چینلز میں اس وقت کا سب سے اہم اور اہم چینل نیو دہلی ٹی وی (این ڈی ٹی وی) تھا۔جس کی بنیاد انیس سو اٹھاسی میں بھارتی ماہر معیشت پرانائے رائے اور ان کی صحافی بیوی رادھیکا رائے نے رکھی۔ اس چینل نے انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کی کوریج سے اپنے آپریشنز کا آغاز کیا۔ اس کے بعد بیسیوں بھارتی چینل میدان میں آگئے۔ اس سے واضح طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت نجی سیٹلایئٹ ٹی وی چینلز کے میدان میں پاکستان سے ایک دہائی سے زیادہ آگے ہے۔ یہی وجہ تھی جنرل مشرف جس نے پاکستان میں صرف سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کو ہی دیکھا تھا، کے لئے اتنے سارے نجی چینلز کو دیکھنا کسی طور پر حیرت انگیز چیز سے کم نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف نے بھی پاکستان میں نجی الیکٹرونک میڈیا کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ ا ایک اور اہم عامل پی ٹی وی کی گرتی ہوئی ساکھ تھی جس کی وجہ سے زیادہ تر پاکستانی درست خبر کے لئے بین الاقوامی میڈیا کی طرف دیکھتے تھے۔ ان حالات میں مشرف کی سوچ تھی کہ نجی میڈیا آنے سے لوگوں کا پاکستانی میڈیا پر اعتبار بڑھے گا اور فوجی حکومت کے کارناموں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہوگی ۔ ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے قیام کے لئے بھی ترغیب دی گئی۔ مگر سال دو ہزار دو میں پریس کونسل آف پاکستان آرڈیننس کا نفاذ بھی کردیا گیا۔ جس کا مقصد صحافیوں اور صحافت کو محدود دائرے تک محدود رکھنا تھا۔ پی پی او کے تحت پریس کونسل قائم کردی گئی۔ جس کے خلاف صحافتی تنظیموں نے بہت شور مچایا۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ سال دو ہزار اور دو ہزار ایک میں ہی چھوٹے چھوٹے ٹی وی چینلز کے قیام پر کام شروع ہو چکا تھا۔ مگر سب سے بڑا ٹی وی چینل جو کے بعد پوری پاکستانی سیٹلایئٹ ٹی وی انڈسٹری کے لئے رول ماڈل بنا وہ جیو ٹی وی تھا۔ جس کی بنیاد جنگ گروپ نے اپریل دو ہزار دو میں رکھی لیکن اس کی باقائدہ نشریات یکم اکتوبر دو ہزار دو سے شرو ع ہوئیں۔ اس کے بعد دو ہزار پانچ میں بزنس ریکارڈر گروپ نے آج ٹی وی لانچ کیا اور جنرل مشرف کو حکومت سے فارغ کیے جانے کے وقت تک پاکستان میں ٹی وی چینلز کی تعداد چالیس تک پہنچ چکی تھی۔ ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو چینلز کو ایک خاص حد تک آزاد رکھنے کے لئے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کردی گئی۔ جس کی بنیاد پیمرا آرڈیننس دو ہزار دو تھا۔ جس کو بعد میں دو ہزار سات میں پیمرا ایکٹ میں بدل دیا گیا۔ جنرل مشرف کا نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ ہنی مون پانچ سال سے بھی کم عرصے کے لئے چل سکا۔ تین نومبر دو ہزار سات کو جب ایمرجنسی کا نفاذ ہوا تو ملک میں ایک مرتبہ پھر آئین معطل کردیا گیا اور اس کے تحت ملنے والی آزادی رائے اور تحریر کو بھی سلب کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پیمرا ایکٹ دو ہزار سات کے استعمال سے سیٹلائٹ چینلز کو عملی طور پر ڈیڑھ دو ماہ کے لئے بند کردیا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here