جب زمین کانپ اٹھی
تحریر: محمد لقمان
آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کی صبح ابھی ٹسڈیک کی عمارت کی بالائی منزل پر اپنے کمرے میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک دم شدید جھٹکا محسو س ہوا۔ میر ی ریوالنگ چیر ایک دم جھومنے لگی اور سامنے ٹیبل پر پڑا کمپیوٹر بھی ہلنے لگا۔ اپنے کمرے سے باہر دیکھا تو ایک عجب سی بھاگ دوڑ اور چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ ایک دم کسی نے چلا کر کہا کہ نچلی منزل پر چلے جائیں شدید زلزلہ آرہا ہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ دوڑنے بھاگنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ افراتفری میں دوسروں سے ٹکرانے اور سیڑھیوں سے گرنے کے امکانات کہیں زیادہ تھے۔ اس لیے میں اپنے کمرے میں ہی بیٹھا رہا۔ تقریباً پندرہ منٹ کے بعد نچلی منزل پر جانے والے لوگ واپس اپنے ورک اسٹیشنز پر آگئے۔ ٹسڈیک کے دفتر میں تو چیزیں معمول پر آگئی تھیں۔ مگر ایک دو گھنٹے کے بعد ہی ملک کے بالائی علاقوں سے بری خبریں آنی شروع ہوگئی تھیں۔ سب سے پہلے اسلام آباد میں مرگلہ ٹاور نامی بلڈنگ کے گرنے کی خبر آئی۔ جنرل مینجر فائنانس عارف کچلو راولپنڈی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے یہ خبر ان کے کسی عزیز نے ان کو فون پر بتائی۔ اس وقت پی ٹی وی اور جیو سمیت چند ٹی وی چینلز ہی ملک میں تھے۔ اور ہمارے پاس کوئی ٹی وی سیٹ موجود نہیں تھا۔ اس لیے ساری خبریں فون یا انٹرنیٹ سے ہی مل رہی تھیں۔ بہر حال شام تک پتہ چلنا شروع ہوگیا تھا کہ زلزلہ سے صرف اسلام آباد کی ایک عمارت ہی متاثر نہیں ہوئی۔ آزاد کشمیر اور اس وقت کا صوبہ سرحد بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ زلزلہ صبح آٹھ بجکر پچاس منٹ کے لگ بھگ آیا تھا۔ ریکٹر سکیل پر سات اعشاریہ چھ شدت والے زلزلے نے لمحوں میں بستیاں تباہ کر دیں۔ زلزلے کے بعد کئی روز تک آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ زلزلے سے صوبہ سرحد کا شہر بالاکوٹ کا پچانوے فیصد تباہ ہو گیا۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں بھی تباہی آئی۔ باغ، ہزارہ اور راولاکوٹ میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ زلزلے سے اٹھائیس لاکھ افراد بے گھر بھی ہوئے۔ اس زلزلے سے کتنے افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے بارے میں اعداد وشمار تہتر ہزار سے چوراسی ہزار تک رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی آفت تھی۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی اپیل سے اربوں ڈٖالرز کی امداد پاکستان آئی۔ چوبیس اکتوبر دو ہزار پانچ کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی کے لیئے ایک نئے ادارے ایرا کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد کشمیر اور صوبہ سرحد میں بھی بحالی کے ادارے معرض وجود میں آگئے۔ اس سے ٹھیک دو سال بعد اگست دو ہزار سات میں نیشنل ڈزازسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، این ڈی ایم اے اور صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے قائم کیے گئے۔ ان اداروں کے قیام کا مقصد زلزلے جیسی قدرتی آفات کی صورت میں فوری بحالی کے کام کو انجام دینا تھا۔ زلزلے کے کچھ عرصہ بعد ہی اس وقت کے وفاقی صنعت و پیداوار جہانگیر خان ترین کی صدار ت میں پہلے اسلام آباد اور بعد میں ٹسڈیک کے دفتر میں اجلاس ہوئے ۔ جس میں زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں بحالی میں وزارت صنعت کے اداروں خصوصاً ٹسڈیک کے کردار پر بات ہوئی اور ابتدائی طور پر طے پایا کہ صوبہ سرحد کے اضلاع ہزارہ اور بٹ گرام میں متاثرہ علاقوں کے نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے مراکز قائم کیے جائیں گے۔ جن کو سکل ڈویلپمنٹ سنٹرز ( ایس ڈی سی) کا نام دیا گیا ۔ آنے والے دنوں میں ہزارہ کے علاقے خاکی اور بٹ گرام میں کوزہ بانڈہ کے علاقے میں صوبائی حکومت نے جگہ دے دی۔ جس پر یہ مراکز تعمیر ہوئے۔ طے یہ پایا کہ چونکہ زیادہ تر اموات بھاری تعمیراتی میٹریل یعنی پتھر ، اینٹوں اور کنکریٹ سے بنی عمارتوں کے گرنے کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ اس لیے متاثرہ علاقوں میں ان مراکز کی تعمیر میں کم وزن تعمیراتی سامان استعمال ہوگا۔ اس لیے اسٹیل اور فائبر سے بنی پری۔ فیبریکیٹڈ ( پری فیب) عمارتوں کا تصور پیش کیا گیا اور صوبہ سرحد میں سکل ڈویلپمنٹ سینٹرز ایسی عمارتوں میں ہی قائم کیے گئے۔ جنرل مینجر کرنل انور پرویز اور ان کی ٹیم جن میں نبیل اصغر اور سعدیہ سمیت درجنوں انجینیرز تھے۔ کو اس منصوبے کی کامیابی کے لئے دن رات کام کرنا پڑا۔
( جاری ہے)