خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو انتالیس

0
383


شوکت عزیز کی جہازی سائز کابینہ

تحریر: محمد لقمان
وزیر اعظم شوکت عزیز خود تو ہر لحاظ سے بدیشی سمجھے جاتے تھے۔ مگر انہوں نے کابینہ کا حجم بالکل پاکستانی معیار کے عین مطابق رکھا تھا۔ اگر ان کی کابینہ کے سائز کا ماضی کی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو اس کا شمار پاکستان کی تاریخ کی چند بڑی کابیناؤں میں کیا جاسکتا ہے۔ دو مرحلوں میں انسٹھ وزیر اکٹھے کیے گئے تھے۔ اس بھان متی کے کنبے میں ظفر اللہ جمالی کابینہ کے کچھ لوگ تھے تو قاف لیگ اور پیپلزپارٹی پیٹریاٹ سے تعلق رکھنے والے نئے چہرے بھی تھے۔ ان میں وزیر دفاع راو سکندر اقبال بہت اہم تھے۔ یہ سب وہ لوگ جو وزیر اعظم سے زیادہ صدر کے وفادار تھے۔ وزیر خارجہ کے طور پر اس کابینہ میں خورشید محمود قصوری ہی تھے۔ شیخ رشید احمد بھی ورثے میں وزیر اطلاعات مل گیئے تھے۔ ھمایوں اختر خان وزیر تجارت ، آفتاب خان شیرپاو وزیر داخلہ جبکہ ریلوے کی وزارت میاں شمیم حیدر کو ملی۔ لیاقت جتوئی وزیر صنعت کے طور پر شامل کیے گیئے تھے۔ یہ وہ وزارتیں تھیں جن سے عموما مجھے واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ باقی خواتین وزرا کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ اے پی پی کے رپورٹر کے طور پر ہفتے میں کئی روز شیخ رشید کی کوریج کرنی پڑتی تھی۔ انفرادی طور پر آنے کے علاوہ وہ صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز کے ساتھ بھی آتے۔ بطور وزیر اطلاعات و ثقافت شیخ رشید کا ہر فنکشن کے لیئے الگ ہی حلیہ ہوتا تھا۔ اگر الحمرا میں کوئی موسیقی کا پروگرام ہوتا تو صاحب بوسکی کی شلوار اور گیروے یا دیگر کسی رنگ کا کرتہ زیب تن کرکے آتے۔ سردیوں میں ویسٹ کوٹ یا کوٹ بھی ہوتا اور سرخ رنگ کا مفلر بھی گردن کے گرد ضرور ہوتا۔ ایسی محفلوں میں بڑے ہی غیر سنجیدہ اور تماش بین مزاج کا مظاہرہ کرتے۔ مگر دیگر فنکشنز میں کئی مرتبہ بڑے معتبر بھی نظر آتے۔ سرکاری میڈیا کے ساتھ ان کا رویہ عموماً بڑا متکبرانہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عموماً پی ٹی وی اور ریڈیو کے لوگ تو کسی پریس کانفرنس میں سوال ہی نہیں کرتے تھے۔ اے پی پی والا بندہ زیادہ تر محتاظ انداز میں ہی وزیر باتدبیر سے کوئی سوال پوچھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سرکاری میڈیا کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے تھے۔ انہیں دنوں ابھی نیا نیا الیکٹرانک میڈیا آیا تھا۔ اس لیے شیخ رشید کی زیادہ تر کوشش ہوتی تھی کہ پرایئیویٹ میڈیا سے تعلقات بہتر ہوں۔ دوسرے وزیر جن کا سامنا عموماً لاہور کے صحافیوں کو کرنا پڑتا تھا وہ ھمایوں اختر خان تھے۔ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ان کے لاہور چیمبر یا ایکسپورٹ پروموشن بیورو ( موجودہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ) میں بہت کم فنکشنز ہوتے۔ زیادہ تر وہ لاہور کینٹ میں اپنے حلقہ انتخاب میں ہی نظر آتے۔ مگر ان کی کوریج تو ایک کامرس رپورٹر کو ہی کرنا ہوتی تھی۔ عموماً وہ اپنے حلقہ انتخاب میں کسی یونین کونسل میں قاف لیگ کے مقامی رہنما کے پاس جاتے تو پورے میڈیا کو کوریج کی دعوت دیتے۔ ان تقریبات میں عام طور پر سوالات پاکستان کی برآمدات ، تجارتی خسارے اور بھارت اور افغانستا ن کے ساتھ تجارت کے بارے میں ہی ہوتے۔ ان کے بارے میں عموماً تاثر تھا کہ یہ بہت دیالو ہیں۔ اس لیے بہت سارے ضرورت مند رپورٹرز اور فوٹو گرافر ان کے دفتر یا گھر پر ہفتے میں دو چار روز ضرور حاضری دیتے اور فیض پاتے۔بعد میں کئی الیکٹرانک میڈیا کے لوگ بھی ان کے عقیدت مند بن گئے تھے۔ ان سارے مالی اور معاشی نوعیت کے تعلقات کے فروغ کے لئے ایک انگریزی اخبار کا فوٹو گرافر فوکل پرسن کا کردار ادا کرتا تھا۔ اب کچھ بات ریلوے کے وزیر میاں شمیم حیدر کی ہوجائے۔ وہ اپنے تکیہ کلام . گویا کہ. کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ ایک فقرے میں ایک دفعہ ضرور یہ لفظ آتا تھا۔ جب یہ تکیہ کلام وہ ادا کرتے تو عموماً آواز گوا کے ، کی آتی تھی۔ ایک دفعہ میں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران مذاق سے ایک انگریزی اخبار کے جونیر رپورٹر کو کہا کہ وہ میاں شمیم حیدر سے پوچھیں کہ وہ گوا سے کب آئے ہیں ۔ اس رپورٹر نے سادگی میں یہ سوال وزیر ریلوے سے کر دیا تو وزیر صاحب پریشان ہو کر کہنے لگے کہ وہ تو کبھی بھارتی شہر گوا نہیں گئے۔ وزیر صنعت لیاقت جتوئی سے عموماً سمیڈا اور پٹاک یا وزارت صنعت و پیداوار کے دیگر ذیلی اداروں کے دفاتر میں ملاقات ہوتی۔ ان کے پاس بھی بڑی گنی چنی باتیں ہی ہوتی تھیں۔ جن کی بنیاد کوئی جغادری سے جغادری رپورٹر بھی کوئی کام کی خبر نہیں نکال سکتا تھا۔ بہر حال اس زمانے میں جیو اور دیگر چند ٹی وی چینل موجود تھے۔ مگر پرنٹ میڈیا کے غلبے کی وجہ سے ابھی ایک رپورٹر کی مرکزی حیثیت موجود تھی۔ اس لیے پریس کانفرنسوں میں پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے صحافیوں کو پوری عزت ملتی تھی۔
(جاری ے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here