صحافت کے مرشد بھی رخصت ہوگئے

0
661

تحریر: محمد لقمان

میری پہلی ملاقات افتخار احمد علوی سے فروری 1991 میں اے پی پی لاہور کے چائنہ چوک میں واقع بیورو آفس میں ہوئی۔ اسلام آباد ہیڈ آفس نے ٹریننگ کے بعد میری تعیناتی بطور رپورٹر لاہور آفس میں کر دی تھی۔ دفتر کا ماحول نیا اور کچھ زیادہ سازگار نہ تھا۔ یوں سمجھ لیں جیسے مسافروں سے بھری ٹرین میں ایک نیا مسافر سوار ہو جائے۔ اُس وقت اے پی پی لاہور بیورو کے پہلے سے موجود صحافیوں کے ساتھ نئے آنے والوں کے لیے گھل مل جانا آسان نہ تھا۔ ایسے میں جس شخصیت نے نوواردوں کا ساتھ دیا، وہ افتخار احمد علوی تھے۔

علوی صاحب بظاہر نرم خو اور مرنجان مرنج طبیعت کے مالک تھے، مگر دوستی اور دشمنی دونوں میں انتہا پسند واقع ہوئے۔ کوئی مشکل میں ہوتا تو ضرور مدد کرتے۔ جسمانی طور پر کمزور ضرور تھے لیکن حوصلہ ہمیشہ جوان رکھا۔ 1994 میں مینجمنٹ کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے انہیں فیصل آباد ٹرانسفر کر دیا گیا، مگر انہوں نے وہ مشکل وقت بڑے صبر کے ساتھ گزارا۔

ہمارا تعلق رفتہ رفتہ گہری دوستی میں بدل گیا۔ وہ نیوز ڈیسک پر ہوتے تھے مگر اکثر رپورٹرز روم میں آجاتے۔ شروع میں ان کی دوستی مجھ سے اور اسپورٹس رپورٹر سہیل علی سے تھی، بعد میں دبیر بٹ اور مرحوم ایاز منصور بھی اس محفل کا حصہ بن گئے۔ دبیر بٹ اکثر خبر لکھنے میں مشکل محسوس کرتے، تو علوی صاحب ـ جنہیں ہم سب پیار سے مرشد پاک کہتے تھے ـ اُن کی مدد کرتے اور یوں خبر فائل ہو جاتی۔

مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر دفتری خط و کتابت میں انہیں کمال حاصل تھا۔ آج اگر میں دفتری ڈرافٹنگ بہتر طریقے سے کر لیتا ہوں تو یہ انہی کی تربیت کا نتیجہ ہے۔

علوی صاحب زندگی بھر مختلف بیماریوں کا شکار رہے۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں انہوں نے گردے کا ٹرانسپلانٹ کروایا اور بعد میں دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہو گئے۔ اس کے باوجود وہ شام کے وقت ہمارے ساتھ باغ جناح کی سیر میں ضرور شریک ہوتے۔ ہم سب کم ازکم دو چکر جاگنگ ٹریک کے لگاتے اور گپ شپ کرتے۔

اپنی محنت اور خلوص کی وجہ سے وہ پہلے لاہور بیورو میں ڈیسک انچارج بنے اور پھر بیورو چیف کے عہدے پر فائز رہے۔ ماتحتوں کے ساتھ ان کا رویہ محبت بھرا تھا۔ ایک شفیق باپ کی حیثیت سے انہوں نے اپنے بیٹے یثرب اور بیٹی انیلا کی بہترین تربیت کی۔ میرے بچوں سے بھی وہ بے پناہ پیار کرتے۔

جب میں نے 2007 میں اے پی پی چھوڑ کر پرائیویٹ سیکٹر میں بہتر تنخواہ پر ملازمت اختیار کی تو انہوں نے اس فیصلے پر دل سے خوشی کا اظہار کیا۔ خود وہ 2013 میں ریٹائر ہوئے۔ ابھی پندرہ روز پہلے ان سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ صحت کے مسائل ضرور ہیں مگر وہ اپنے حالات سے مطمئن ہیں۔

بدقسمتی سے تین روز قبل انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کرایا گیا۔ لیکن آج، 3 اکتوبر کی صبح وہ ہم سب کو داغِ مفارقت دے گئے۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here