خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو بیالیس

0
300


چڑھدے اور لہندے پنجاب کا ملن

تحریر: محمد لقمان

سال دو ہزار چار کے جنوری کے آخری ہفتے میں لاہور میں عالمی پنجابی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا انتظام اس وقت ورلڈ پنجابی کانگریس کے چیرمین اور مشہور لکھاری فخر زمان نے کیا تھا۔ یہ وہی فخر زمان ہیں جن کی ذوالفقار علی بھٹو کی قید کے بارے میں کتاب ۔بندی دان ۔دنیا بھر میں مقبول ہوئی۔ جس کا بعد میں مشہور مصنف خالد حسن نے انگریزی میں دی پرزنر کے طور پر ترجمہ کیا۔ دو ہزار چار کی عالمی پنجابی کانفرنس کی اہم بات تھی کہ اس میں بھارتی پنجاب کے چیف منسٹر کیپٹن امرندر سنگھ بھی ایک بہت بڑے وفد کے ساتھ شریک ہوئے۔ چڑھدے پنجاب کے مکھ منتری کا دورہ لاہور کسی طور پر بھی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے انیس سو ننانوے کے دورے سے کم امید افزا نہیں تھا۔ لہندے پنجاب کے چیف منسٹر چوہدری پرویز الہی نے چڑھدے پنجاب کے چیف منسٹر کا استقبال واہگہ کے بارڈر پر کیا۔ یہ انیس سو سینتالیس میں متحدہ پنجاب کی تقسیم کے مشرقی پنجاب کے دوسرے چیف منسٹر کا مغربی پنجاب کا دورہ تھا۔ اس سے پہلے سردار پرکاش سنگھ بادل انیس سو ننانوے میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ لاہور آئے تھے۔ پہلا بیان جو کہ انہوں نے لاہور پہنچتے ہی دیا وہ پاک۔ بھارت تعلقات میں بہتری کے بارے امیدوں سے بھرا تھا۔ چڑھدے پنجاب کے چیف منسٹر کے دورے کے موقع پر مال سمیت مختلف سڑکوں پر کیپٹن امرندر سنگھ کی تصویروں اور خیر مقدمی نعروں والے بینرز لگا دیے گیئے تھے۔ امرندر سنگھ جو پاکستانی صحافی عروسہ عالم کے ساتھ اپنے تعلق کی وجہ سے میڈیا میں مشہور رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے کی ریاست پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ کے پوتے ہیں۔ اپنے تین روزہ دورے کے دوسرے روز کیپٹن امرندر سنگھ نے لاہور چیمبر میں تاجروں اور صنعتکاروں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب کیا۔۔مجھے یاد ہے کہ اس روز اکثر تاجروں نے پنجابی میں ہی بات کی۔ معمولی سے فرق کے ساتھ چڑھدے اور لہندے پنجاب کی بولی تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔ تاہم رسم الخط کے فرق کی وجہ سے نہ وہ ہماری پنجابی پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہم ان کی ۔ دوسرا فرق ان کی پنجابی میں سنسکرت کے الفاظ اب زیادہ ہیں جب کہ ہماری پنجابی میں عربی اور فارسی۔ میں نے بھارتی پنجاب کے وفد کے ایک رکن سے بات کی تو وہ بہت ثقیل سنسکرت نما پنجابی میں بات کرنے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ میں تہاڈی جناتی بھاشا سمجھ نہیں سکدا تو وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ پچپن سال میں تو ہندی زدہ پنجابی کو ترویج دی گئی ہے۔۔اب ایسا تو ہوگا۔ اس زمانے میں میاں انجم نثار لاہور چیمبر کے صدر تھے۔ انہوں نے دونوں پنجابوں کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے کی بات کی۔ جس پر مشرقی پنجاب کے چیف منسٹر نے اتفاق کیا۔ اسی وفد میں پنجاب۔ ہریانہ۔ دہلی چیمبر آف کامرس کے عہدیدار بھی تھے۔ جنہوں نے لاہور کے تاجروں کو امرتسر اور دیگر شہروں میں ہونے والی صنعتی نمائشوں میں شرکت کی دعوت دی۔ لاہور چیمبر کے ایک عہدیدار محمد علی میاں تو اس موقع پر اتنے جذباتی ہوگیئے کہ انہوں نے دعوی کرڈالا کہ اگر لاہور چیمبر کے امین ہال میں موجود مشرقی پنجا ب اور مغربی پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جایئے تو ساروں کے آباء و اجداد ایک ہی نکلیں گے۔ جس پر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ اس بات پر محمد علی میاں کو بعد میں کئی ہفتوں تک مختلف لوگوں کو صفائی بھی دینی پڑی۔ اس موقع پر لہندے اور چڑھدے پنجاب کے درمیان تعلقات بڑھانے کا جو جذبہ نظر آیا وہ بعد میں کسی موقع پر بھی نظر نہیں آیا۔ اور پاکستان اور بھارت کی تجارت ابھی تک سنگاپور اور دوبئی کے راستے ہی ہور ہی ہے۔ اور سیاسی کشیدگی کے اثرات دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو قیدی بنائے ہوئے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here