تحریر: محمد لقمان
کہتے ہيں برطانوي دور ميں متحدہ ہندوستان کے ايک صوبے کے حاکم کو اپنے زير انتظام دور افتادہ علاقے کے دورے پر جانا تھا۔ اس نے اپنے نائب سے صبح دس بجے اچھی نسل کا ایک گھوڑا تيار رکھنے کو کہا۔ اس نے اپنے ماتحت افسر کو حفظ ماتقدم کے طور پر آدھا گھنٹا پہلے کا وقت دے ديا۔ اس ماتحت نے اپنے ماتحت کو مزيد آدھا گھنٹا پہلے آنے کا کہہ ديا۔ آدھ دس واسطوں کے بعد ہی یہ حکم متعلقہ سائيس تک پہنچا۔
حاکم رات کو اپنے بنگلے پر سو رہا تھا کہ صبح ساڑھے تين بجے گھوڑے کے ہنہنانے کي آواز آئي۔ اس نے کھڑکي سے جھانک کر ديکھا تو ایک سائيس گھوڑے کي لگام تھامے نظر آيا۔ حاکم نے پوچھا کہ گھوڑا کيوں لے کر آئے ہو تو اس نے کہا کہ آپ نے فلاں علاقے کے دورے پر جانا ہے۔ حاکم نے تحقيقات کيں تو پتا چلا کہ ہر افسر نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کےلئے اپنے ماتحت کو گھوڑے کو پہلے دستياب کرنے کا کہہ ديا تھا۔
اس واقعے کو يقيناً ايک صدي کا عرصہ گذر گيا ہے۔ مگر مملکت خدا داد ميں کام کا انداز اب بھي ايسا ہي ہے۔ وزير اعظم يا وزير اعلي کو کسي تقريب ميں شرکت کرني ہو تو ميڈيا سميت شرکا کو چار سے پانچ گھنٹے پہلے بلا ليا جاتا ہے۔ غير ملکي سربراہ دورے پر آجائے تو سکول اور کالج کے بچے بچيوں کو استقبال سے بہت پہلے ہی سڑک کے دونوں طرف تپتی دھوپ میں گھنٹوں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ کئی علاقوں میں ٹریفک کو بھی پورے پورے دن کے لئے بند کردیا جاتا ہے۔۔ آخر يہ گھوڑا ٹائم کي روائت کب ختم ہوگي