گولڈن ٹمپل پر بھارتی حملے کی چھتیسویں برسی۔۔۔سکھ جذبے ٹھنڈے نہیں ہوئے

0
2011

تحریر: محمد لقمان
آج سے چھتیس سال پہلے بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں سکھوں کے متبرک مقام گولڈن ٹیمپل کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا ۔ جسے بھارتی حکومت آپریشن بلیو اسٹار کے نام سے پکارتی ہے۔جس کا مقصد اس وقت کی اندرا گاندھی سرکار کے مطابق دہشت گردوں کو گوردوارے سے نکالنا تھا۔۔ مگر سکھوں کے مطابق فوجی چڑھائی سے نہ صرف گوردوارے کی بے حرمتی ہوئی بلکہ اس دوران سینکڑوں سکھ بھی نا حق مارے گئے۔ ہر سال جب بھی چھ جون کا دن آتا ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک میں رہنے والے تین کروڑ سے زائد سکھ غم و غصے میں کے عالم میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اسی دن ان کے مقدس مقام کو بھارتی گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یکم جون سے آٹھ جون انیس سو چوراسی تک جاری رہنے والی بھارتی فوج کی کاروائی کا بظاہر ان سکھوں کے خلاف تھی جو ایک الگ ملک خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس حملے کی پلاننگ اور قیادت بھارتی فوج کے جنرل کلدیپ سنگھ برار نے کی تھی۔ گولڈن ٹمپل بھارتی حکومت کی آنکھ کا کانٹا اس وقت بنا جب انیس سو بیاسی میں تحریک خالصتان کے سرخیل اور علیحدگی پسند سکھ لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اس کے ساتھی اس گوردوارہ میں رہائش پذیر ہوئے۔ بھارتی حکومت کا الزام تھا کہ وہ اس گوردوارے میں بیٹھ کر بھارتی پنجاب میں سکھوں کے ایک الگ ملک کے قیام کے لئے کوشش کر رہے تھے۔ اس فوجی آپریشن میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ا ور اس کے سینکڑوں ساتھیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ ستاسی بھارتی فوجی بھی مارے گئے۔ تاہم سکھ برادری کے مطابق اس آپریشن میں ہزاروں شہریوں کی جان گئی جن میں سے اکثریت پانچویں گورو ارجن دیو جی کی برسی کی تقریب میں شرکت کے لئے گوردوارے میں موجود تھی۔ کچھ عرصہ پہلے بی بی سی کے بھارت میں نمائندہ ستیش جیکب نے ایک انٹرویو میں اس واقعہ کی روداد بیان کی تھی۔ ان کے مطابق بھارت نے ٹینک سمیت مختلف اسلحہ استعمال کیا۔ جس سے گوردوارے کی عمارت کے بہت سارے حصوں کو آگ لگ گئی اور ڈھانچہ متاثر ہوا۔
گوردوارے پر حملے کا بہت زیادہ رد عمل آیا۔ واقعے کے تقریباً پانچ ماہ کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے سکھ سیکیورٹی گارڈز نے اکتیس اکتوبر انیس سو چوراسی کو گوردوارے پر حملے کا بدلہ لینے کے لئے قتل کردیا۔ جس کی وجہ سے ہندو اکثریت نے پورے بھارت میں سکھوں پر حملے شروع کردیے۔ نومبر کے پورے مہینے میں پورے بھارت خصوصاً نئی دہلی میں سکھ کش فسادات ہوئے جن میں تین ہزار سے زائد سکھ مارے گئے۔ گولڈن ٹیمپل پر حملے کی قیادت کرنے والے جنرل کلدیپ سنگھ برار سے سکھوں نے تین دہائی کے بعد دو ہزار چودہ میں لندن میں بدلہ لینے کی کوشش کی اور اس کے گلے پر تیز دھار آلے سے حملہ کیا ۔ مگر ان کی جان بچ گئی۔
خالصتان تحریک

 

آخر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کیا چاہتے تھے۔ تارییخی طور پر خالصتان کی تحریک کا آغاز برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ سکھوں میں غصے کا آغاز انیس سو چھیاسٹھ میں بھارتی پنجاب کی تین صوبوں میں تقسیم کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ پاکستانی پنجاب تو بہاولپور کی ریاست کے انضمام کے ساتھ مزید بڑا ہوگیا تھا۔جبکہ بھارتی پنجاب کو مشرقی پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں تقسیم کردیا گیا۔ رہی سہی کسر چندی گڑھ کو پنجاب اور ہریانہ کا مشترکہ دارالحکومت بنا کر پوری کردی گئی۔ انیس سو تہتر میں اکالی دل اور دیگر سکھ پارٹیوں نے انند پور صاحب میں ایک قرارداد پاس کی جس کا بنیادی مقصد پنجاب کی خود مختاری میں اضافہ تھا۔ مگر انڈین نیشنل کانگریس اور وزیر ا عظم اندرا گاندھی نے اس سکھ علیحدہ پسندی کی بنیاد سمجھا۔ اس قرارداد کے بارے میں بہت زیادہ تفصیل راجیو الوچن کپور نے اپنی کتاب سکھ سیپرا ٹزم ۔ دی پالیٹکس آ ف فیتھ میں دی ہے۔ خالصتان کی تحریک انیس سو اسی کی دہائی میں زور شور سے چلتی رہی۔ بھارت اس تحریک کو تیز کرنے کا الزام پاکستان پر لگاتا رہا۔ مگر اس تحریک کی سیاسی اور مالی طور پر آبیاری کینڈا، برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے سکھ کر رہے تھے۔ جن میں جگجیت سنگھ چوہان کا نام بہت اہم ہے۔ مگر انیس سو نوے کی دہائی میں اس تحریک کو کچلنے میں بھارتی پنجاب کی پولیس نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے پی ایس گل نے چن چن کر ایسے سکھ نوجوان قتل کیے جن کا معمولی سا بھی خالصتان تحریک سے تعلق نظر آیا۔ انیس سو چھیانوے میں بولی وڈ فلم ماچس خالصتان تحریک کے بارے میں بنائی گئی تھی۔ جس میں یقیناً بھارتی پنجاب کے نوجوانوں کو گمراہ قرار دیا گیا تھا۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ یقیناً بھارت میں سکھوں کے ساتھ ایسی ناانصافیاں ہوئی تھیں۔ جس کی وجہ سے وہ آج بھی خالصتان کی مانگ سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بھارت کی پوری کوشش رہی ہے کہ اس کے اندر چلنے والی ستائیس علیحدگی کی تحریکوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دے۔ اس کا واضح ثبوت کرتارپور راہداری کے خلاف نئی دہلی کا پراپیگنڈہ ہے۔ جو کہ ابھی بھی کم نہیں ہو رہا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here