کورونا سے لڑیں یا ٹڈی دل سے۔۔۔پاکستان دوراہے پر

0
1976

تحریر: محمد لقمان
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض یحیی جعفری چھبیس فروری کو سامنے آیا۔ جو ایران سے پاکستان کے شہر کراچی واپس آیا تھا۔ مگر اس سے بہت پہلے ٹڈی دل  پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں داخل ہو کر فصلوں کی تباہی کر چکا تھا۔ پاکستان میں ٹڈی دل کی آمد پچھلے سال کے اواخر میں شروع ہوگئی تھی۔ بلوچستان کے کئی اضلاع میں فصلوں کو مشرقی افریقہ سے سعودی عرب اور ایران کے راستے آئی ہوئی ان ٹڈیوں نے تباہ و برباد کیا اور سندھ کے صحرا تھر تک ان کے اثرات محسوس کیے گئے۔ پچھلے چھ ماہ میں ٹڈی دل کی پیش قدمی جاری ہے۔ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں پچاس اضلاع کے وسیع علاقوں میں ٹڈی دل کے حملوں میں قیمتی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ ان میں کپاس ، گندم، سبزیاں، آم کے باغات شامل ہیں۔ یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب پاکستان کے شہری علاقوں میں لوگ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نبرد آزما ہیں۔ مگر اہل دیہات کا بڑا مسئلہ ٹڈی دل کا حملہ ہے۔ جو کہ ہر ے بھرے کھیتوں کو ویران کر رہے ہیں۔ وہ وبا جو کہ جنوری فروری تک بلوچستان کے بعد سندھ کے تھر سے ہوتی ہوئی پنجاب کے رحیم یار خان کے ضلع تک آئی تھی۔ اب پنجاب کے تیرہ سے چودہ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ جن میں شمالی پنجاب کا ضلع چکوال بھی شامل ہے۔ سرکار کی طرف سے بہت زیادہ امداد نہ ملنے پر کسان اپنی مدد آپ کے تحت اپنی کمر سے لٹکائی مشینوں کے ذریعے پیسٹیسائڈز کا سپرے کر رہے ہیں۔ ٹڈی دل کے پاکستان پر حملے کوئی نئی بات نہیں۔ مگر اس وقت تین چار دہائیوں کے بعد ایک بڑا حملہ دیکھنے کو ملا ہے۔ بچپن میں جب میرے والد پاکستان کی فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کے بارے میں بتاتے تو میرے ذہن کی سکرین پر ہزاروں لاکھوں ٹڈے نظر آتے۔ بڑے معصوم سے ٹڈے۔ جن کو ہم اکثر اپنے سکول کے لان میں کھیلتے کھیلتے پکڑ لیتے۔ لیکن مجھے کبھی بھی احساس نہیں ہوا کہ یہ وہ ٹڈے نہیں ہیں جو کہ افریقہ ا ور مشرق وسطی سے خوراک کی تلاش میں ہزاروں کلو میٹر سفر کرتے ہوئے ایران کی فصلوں کو تاراج کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت پہنچتے ہیں۔ اس وقت جب پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کی ممالک کی طرح کورونا نامی وائرس کی تباہ کاریوں کے ہاتھوں پریشان ہے۔ تو چھ ماہ کے دوران ٹڈی دل کے دوسرے بڑے حملے نے بھی ملکی معیشت خصوصاً زراعت کے لئے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ24 گھنٹوں میں بلوچستان میں 2200 ہیکٹر رقبے پراسپرے کیا گیا، پنجاب میں 1000، خیبرپختونخوا میں 200 ہیکٹر اور سندھ میں 30 ہیکٹر رقبہ ٹریٹمنٹ کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ مشتے بعد از جنگ کی طرح ہے۔ یا جیسے پنجابی زبان کا محاورہ ہے کہ عید دے بعد تنبا پھوکنا یعنی اگر آپ کی شلوار عید کے بعد سل کر آئے تو اس کو آگ لگا دینی چاہیے۔ اب ہمارے ادارے کورونا کورونا کھیلنے کے بعد ٹڈی دل کے خاتمے کے ہر روز بیان دے رہے ہیں۔ مگر ماہرین اور عالمی اداروں کا کچھ اور ہی کہنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ ٹڈی دل کے حالیہ حملوں کے باعث پاکستان میں بڑے پیمانے پر خوراک کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹڈیوں کی افزائش نسل گذشتہ سال کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے اس لیے انہیں کنٹرول کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کرنا پڑ رہی ہیں ماضی کے تجربات کے مطابق فروری سے جون تک پہلے سیزن میں ٹڈیاں بلوچستان میں ہوتی ہیں۔ جون سے لے کر ستمبر تک دوسرے سیزن میں ٹڈیاں بلوچستان سے سندھ اور پنجاب منتقل ہوجاتی ہیں مگراس بار پنجاب اور سندھ میں ٹڈیوں کا خطرہ وقت سے پہلے سامنے آ رہا ہے۔ اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ اس بار ہم نے ٹڈی دل کے بارے قومی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود تھر میں ٹڈیوں کے انڈوں کو تلف کرنے کے لئے بروقت اقدامات نہیں کیے۔ ہمیں ایران اور بھارت سے مل کر بہت پہلے ٹڈیوں کی تلفی کے لئے کام کرنا چاہیے تھا ۔ وہ بھی نہیں کیا۔ زیادہ وقت ہمارا کورونا وائرس کو روکنے کے لئے بیانات اور اعلانات میں لگ گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کورونا کے کیسز اور ان سے ہونے والی اموات میں اضافہ جاری ہے اور ٹڈیوں کے ہاتھوں فصلوں کی تباہی کا سلسلہ بھی نہیں رکا۔ (جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here