تحریر: محمد لقمان
پاکستان سمیت برصغیر میں دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں کڑاکے کی سردی پڑتی ہے۔ اگر اس عرصے کو دیسی مہینوں میں دیکھا جائے تو پندرہ دسمبر سے پندرہ جنوری تک پوہ کا مہینہ ہوتا ہے جبکہ پندرہ جنوری سے پندرہ فروری تک ماگھ۔ دونوں مہینوں میں خون جمانے والی سردی پڑتی ہے۔۔ کئی مرتبہ تو بہت زیادہ گرم کپڑے پہننے کے باوجود بھی سردی جسم کے اندر گھستی ہی جاتی ہے۔ اسی سردی یا سیال سمے کے بارے پنجابی زبان کی روایت ہے کہ ایک جنگل میں ایک بھوکے شیر کو ایک گیدڑ نظر آیا۔ اس وقت کے جنگل کے قوانین کے مطابق اس کو کھانے کے لئے شیر کے پاس کوئی جواز ہونا ضروری تھا۔ شیر سمجھدار تھا۔ اس نے خوفزدہ گیدڑ کو دیکھا اور ایک سوال داغ دیا۔ کہ پوہ کے مہینے میں زیادہ سردی ہوتی ہے یا ماگھ میں۔ موت کے منہ میں بیٹھے گیدڑ نے اپنے اعصاب کو مجتمع کیا اور شیر کو سنگھ سردار کہ کر مخاطب ہوا کہ ، پوہ نہ پالا، ماگھ نہ پالا۔۔وا جی، یعنی نہ پوہ سردی کا ذمہ داری ہوتا ہے نہ ہی ماگھ۔۔یہ ہوا ہے جو کہ سردی کا احساس دیتی ہے۔ یوں گیدڑ نے اپنی جان بچا لی۔ محاوراتی گیدڑ کی تو جان بچ گئی۔
مگر موسمیاتی تغیر کے باعث اب دسمبر اور جنوری میں اتنی سردی پڑ جاتی ہے کہ انسان کی جان نہیں بچتی۔ پہاڑی علاقوں میں پہلے برف باری سے جانی نقصان ہوتا ہے تو بعد میں تودے گرنے سے۔ منفی درجہ حرارت کی وجہ سے عام عوام بیمار بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر بروقت علاج نہ میسر ہو تو جان بھی چلی جاتی ہے۔ کراچی سمیت پاکستان کے جنوبی علاقے بھی موسم سرما میں کچھ دیر کے لئے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ جس کا ذمہ دار لوگ سائبیریا سے آنے والی ہواوں کو قرار دیتے ہیں۔ پوہ اور ماگھ جیسے سرد مہینوں کے بعد بکرمی سال کا آخری ماہ پھاگن آتا ہے۔ جو کہ پندرہ فروری سے پندرہ مارچ تک جاری رہتا ہے۔ اپنے گلابی موسم کی وجہ سے ہر کوئی اس مہینے کا دلدادہ نظر آتا ہے۔۔اسی مہینے میں خزاں میں متاثر ہونے والے پودوں پر پتے دوبارہ آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر بہار کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کا بھرپور اظہار نئے بکرمی سال کے آغاز یعنی چیت میں ہوجاتا ہے۔ یوں موسم سرما لوگوں کے لئے خوش کن اور تکلیف دہ اثرات کے بعد رخصت ہوجاتاہے