پوٹو ہار: پنجاب میں زرعی ترقی کا نیا مرکز

0
5120

پوٹوہار میں زیتون کی کاشت

تحریر: محمد لقمان

تقریباً تین دہائیاں پہلے سطح مرتفع پوٹوہار کے بارے جب بھی کوئی بات کرتا تھا تو  صرف راولپنڈی اور اسلام آباد ہی ذہن میں آتے تھے۔ علاقے کے خواص بھی ایسے بیان کیے جاتے تھے کہ جیسے یہاں نا ہموار زمین اور فوج کے سپاہیوں کی بھرتی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اس علاقے میں زمین ہموار نہیں۔ درخت پھل دار نہیں۔ موسم کا اعتبار نہیں وغیرہ وغیرہ۔ 1980 کی دہائی میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آّباد میں تعلیم کے دوران  فیصل آباد سے راولپنڈی ٹرین یا بس کے ذریعے جاتے ہوئے   گہری کھائیوں اور چھوٹے چھوٹے کھیتوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آتا۔ مگر راولپنڈی میں بارانی کالج سے سید مہر علی شاہ بارانی یونیورسٹی بننے اور چکوال میں بارانی ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی زرعی تحقیق کے بعد صورت حال بہت بدل گئی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کی تربیت کے دوران 1990 میں اسلام آباد کے نواح میں فتح جنگ گئے تو وہاں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ پوٹوہار میں بھی کچھ نہ کچھ زراعت ہے۔ مگر ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہی کہ پنجاب کی زیادہ تر زراعت صرف وسطی اور جنوبی پنجاب میں ہی ہے۔ اور شمالی پنجاب نہ صرف گندم کے میدان خود کفیل نہیں بلکہ وہاں دیگر فصلوں سوائے مونگ پھلی کے، کاشت کا کوئی امکان نہیں۔ مگر پوٹوہار کے علاقے میں زراعت میں ترقی کا اندازہ 2012 میں ہوا جب میں پہلی مرتبہ زیتون کے باغات پر نیوز رپورٹ بنانے کے لئے چکوال اور کلرکہار میں گیا۔ مٹیالی سبز پتوں والے درخت اب ہر طرف دکھائی دینے لگے تھے اور کچھ درختوں پر پہلی مرتبہ پھل بھی آچکا تھا۔ بارانی انسٹی ٹیوٹ نے بھی اپنے تئیں زیتون کی دو نئی اقسام تیار کرکے اپنی ذمہ داری ادا کردی تھی۔ مگر زیتون کو ایک اجنبی زمین میں فروغ دینے میں زیادہ تر کردار پرائیویٹ سیکٹر کا ہی تھا۔

ان میں سب سے زیادہ جس کمپنی نے زیتون کے پودے کاشت کیے تھے۔ وہ تعمیراتی کمپنی اظہار گروپ تھا۔ کلر کہار کے نواح میں سینکڑوں ایکڑ پر کاشت زیتون کے پودے ایک عجب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ ٹی وی پر جب میری پہلی رپورٹ چلی تو لوگوں کا بہت مثبت رد عمل آیا۔ یو ٹیوب پر رپورٹ دیکھ کر امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی فارس خان کا فون آیا اور اس نے مجھ سے باری چکوال کا ایڈریس اور فون نمبر مانگا۔  چکوال میں صرف زیتون کے باغات ہی نہیں ہیں، انگور ، مالٹے اور لیموں کی کاشت کے بھی کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔

 2012 کے بعد 2015 میں چکوال گیا تو زیتون کے زیرکاشت رقبہ تین گنا ہوچکا تھا۔ 2017 میں تو نجی کمپنیوں نے زیتون کی کاشت کے لئے سینٹر بھی قائم کیے اور ایک سو روپے فی کلوگرام کے حساب سے زیتون کے پھل کی خریداری کی۔ اس کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی ایک فرم نے انسٹی ٹیوٹ کے اندر ایک سالوینٹ پلانٹ قائم کردیا جو کہ زیتون کے پھل کر کچلنے کے بعد اس سے تیل کشید کرسکتا تھا۔ اسی مشین کا انچارج تو ایک پاکستانی تھا مگر مینٹیننس کا کام ترکی کے ایک انجینیر کے سپرد تھا۔ شروع میں اس پلانٹ کی صلاحیت تیس ٹن روزانہ تھی۔

(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here