وادی کشمیر۔۔۔۔سفرنامہ ۔۔۔قسط دوم

0
768

چلے سوئے کشمیر

تحریر: محمد لقمان

راولپنڈی سے مری کے راستے مظفر آباد کا سفر مانسہرہ کے راستے سفر سے کہیں بہتر ہے۔ فاصلہ تو سو کلومیٹر سے کچھ زائد ہے۔ مگر سانپ کی طرح بل کھاتی سڑکوں اور خطرناک چڑھائی اور اترائی کی وجہ سے گاڑی عموماً بیس تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ نہیں چلتی۔ کہیں تو رفتار اس سے بھی کم ہوجاتی ہے۔۔۔ اس لیے راستے میں متعدد مقامات پر سٹاپ اوور کے بعد کوسٹر سہہ پہر چار بجے کے قریب آزاد کشمیر کے دارالحکومت پہنچی۔ اس سے پہلے ہی سفر کے لئے کوآرڈینیٹر وحید ظفر پرل کانٹیننٹل ہوٹل والوں کو بتا چکے تھے کہ ہمارے لیے لنچ کا انتظام کیا جائے۔ اس سے پہلے مجھے مظفر آباد جانے کا دو مرتبہ اتفاق ہوا تھا ۔ ایک مرتبہ انیس سو اٹھانوے اور دوسری مرتبہ دو ہزار سولہ میں۔ انیس سو اٹھانوے میں تو دریائے نیلم کے کنارے ہوٹل نیلم ویو میں ٹھہر ا تھا اور جب کہ دوسری مرتبہ شام کو اسلام آباد واپسی ہو گئی تھی۔ مگر اس بار پی سی ہوٹل میں قیام کا موقع مل رہا تھا۔ یہ آزاد کشمیر میں اب تک بننے والا سب سے بہترین اور جدید ہوٹل ہے۔ ہوٹل کے ریسشن پر پہنچے تو ہر دو افراد کو ایک کمرہ الاٹ کردیا گیا۔ اس بار بھی میرے ساتھ دی نیوز لاہور کے سینیر رپورٹر منور حسن ٹھہرے۔ منور حسن زراعت اور پانی کے شعبوں میں اپنے علم کی وجہ سے مانے جاتے ہیں اور ان سے کسی بھی موضوع پر بات کرنے میں واقعی مزہ آتا ہے۔ دیگر دوست زاہد بیگ، امجد محمود اور اقتدار گیلانی وغیرہ بھی اپنے کمروں میں سیٹل ہو چکے تھے۔ بہر حال کھانا کھانے کے بعد اپنے کمروں میں کچھ دیر کے لئے آرام کیا ۔ ڈنر کے بعد گپ شپ ہوئی۔ نومبر کے مہینے میں جب لاہور میں ابھی بھی گرمی تھی ۔ مظفر آباد کی شام کافی خنک لگی۔ خاص طور پر پی سی ہوٹل کے لان میں بیٹھ کر ملک کے دیگر حصوں میں باقاعدہ سردی آنے سے بہت پہلے سردی کا مزہ مل رہا تھا۔ مظفر آباد دو دریاوں جہلم اور نیلم کے سنگم پر واقع ہے۔ پندرہ سولہ لاکھ آبادی پر مشتمل مظفر آباد آزاد کشمیر کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے، اور پاکستان کا 60 واں بڑا شہر ہے۔ جغرافیائی طور پر مظفر آباد لائن آف کنٹرول سے بہت زیادہ دور نہیں۔ مظفر آباد ضلع کی مغرب میں صوبہ خیبر پختونخواہ، مشرق میں مقبوضہ کشمیر کے اضلاع کپواڑہ اور بارہمولہ اضلاع اور شمال میں ضلع نیلم سے ملتی ہے۔ نیلم ایک زمانے میں مظفر آباد کی تحصیل تھی۔ مگر بعد میں ضلع بنا دیا گیا۔ اس میں سب سے زیادہ پہاڑی بولنے والی آباد ی ہے۔ اس کے علاوہ پوٹھواری،گوجری، ہندکو بولنے والے بھی کافی مل جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مظفر آباد کی بنیاد 1646 میں سلطان مظفر خان نے رکھی تھی، جو کشمیر پر حکومت کرنے والے بمبا قبیلے کے سردار تھے۔ تقریباً چار سو سالہ شہر پیالے کی شکل میں ہے اور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ اسی لیے گلگت کی طرح اس میں گرمیوں کے موسم میں ارد گرد کے پہاڑوں پر موجود برف کے باوجود بھی موسم کافی گرم ہی رہتا ہے۔ قصہ مختصر، رات کو کافی دیر تک ہوٹل کے لان میں موسم کا مزہ لینے کے بعد کمروں میں جا کر جلد سو گئے تاکہ صبح زرعی صحافت پر ہونے والی ورکشاپ میں جلد پہنچ سکیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here