وادي زيتون کا خواب

0
4286
Olive Cultivation in Pakistan

تحرير محمد لقمان

لاہور۔اسلام آباد موٹر وے پر تفريحي مقام کلر کہار کے نواح ميں جائيں تو مٹيالے سبز رنگ  والے پودوں کا ايک جنگل نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔جن پر ليموں کے سائز کے سبز پھل دعوت نظارہ ديتے ہيں۔ سينکڑوں ايکڑ پر محيط زيتون کے باغات نجي شعبے نے لگائے ہيں۔ ہر باغ بيس سے پچيس ايکڑ ناہموار زمين پر قائم ہے۔ يہ وہ زمين ہے جو کہ صديوں سے اوپر نيچے ٹيلوں کي وجہ سے کبھي بھي زير کاشت نہيں لائي گئي تھي۔ سيد يوسف علي شاہ نامي باغبان کے مطابق زيتون جنگلي نوعيت کا ہونے کي وجہ سے زيادہ لاڈلا نہيں ہے۔نہ ہي اس کو زيادہ پاني کي ضرورت ہے نہ کہ زيادہ ديکھ بھال چاہيے۔ زمين کو بھي بہت زيادہ ہموار کرنے کي ضرورت نہيں۔ بڑھي مشکل سے پچاس ہزار روپے في ايکڑ خرچ آتا ہے جب کہ ہر سال لاکھ سے ڈيڑھ لاکھ روپے کي آمدني شروع ہوجاتي ہے۔ زيتون کا ايک پودہ 9 سو سال تک جي سکتا ہے ہے اور فصل ديتا ہے۔ تين سال کي عمر ميں پھل لگتے ہيں تو سو سال کي عمر تک پوري پيداوار ملتي ہے۔ ایک پودا سال میں دوبارپھل دیتا ہے، ایک مارچ اپریل اور دوسرا اگست ستمبرمیں،اوراس پودے کی عمرنوسوسال ہے جس کامطلب ایک پودا دس پشتوں تک پیداوارفراہم کرتا رہیگا۔ بحيرہ روم کے خطے ميں تو زيتون کے 2 ہزار سال پرانے پودے بھي ديکھنے کو ملتے ہيں۔ پاکستان ميں زيتون کي فصل کو کاشت کرنے کے تجربات تقريباً 30 سال پہلے شروع ہوئے۔ پاکستان ايگريکلچر ريسرچ سينٹر، پاکستان آئل سيڈ ڈويلپمنٹ بورڈ اور باراني ايگريکلچر ريسرچ انسٹي ٹيوٹ نے مختلف اقسام کي کاشت کي اور ان کو پاکستان کے حالات کے مطابق بنايا۔ اس وقت پاکستان ميں زيتون کي انہتر اقسام کي کاشت کاميابي سے ہوچکي ہے۔ باراني انسٹي ٹيوٹ  نے زيتون کي دو مقامي اقسام باري زيتون 1 اور باري  زيتون 2 تيار کر لي  ہيں۔ جو  پاکستان کي آب و ہوا ميں کاميابي سے فصل دے رہي  ہيں۔ پوٹوہار کے علاوہ خيبر پختون خوا ، جنوبي پنجاب ، بلوچستان اور کشمير ميں بھي اس پھل کا زير کاشت رقبہ بڑھانے کے امکانات روشن ہيں۔پاکستان ميں اب تک تقريباً  10 ہزار ايکڑ زمين پر زيتون کي کاشت ہوچکي ہے۔ جس ميں سے 3 ہزار ايکڑ کے قريب زمين علاقہ پوٹوہار يعني راولپنڈي، جہلم ، اٹک، چکوال اور خوشاب ميں ہے۔ پوٹوہار ميں کورنگ، دھراب سميت پانچ چھوٹے دريا ہيں۔ جبکہ 3 ہزار کے قريب مني ڈيم اور درجنوں چھوٹے ڈيم موجود ہيں۔ جن کي وجہ سے پاني کے لحاظ سے کم خرچ زيتون پھل کے لئے آبپاشي کوئي بڑا مسئلہ نہيں۔ زيتون کي معاشي اہميت صرف اوليو آئل تک ہي  محدود نہيں۔ زيتون کے پھل سے تين طرح کے تيل، مٹھائي، اچار، مربہ، جام ، جيلي ، بسکٹ اور قہوہ سميت متعدد مصنوعات بنائي جارہي ہيں۔ جن کي مانگ پاکستان ميں موجود ہے۔ جہاں تک زيتون سے ملنے والے خوردني تيل کي اہميت ہے۔ اس سے تيل کي درآمدات ميں خاصي کمي لائي جاسکتي ہے۔ اس وقت پاکستان کي خوردني تيل کي درآمدات 2 کھرب 25 ارب 69 کروڑ 61 لاکھ روپے ہے۔ جس ميں سويا بين، پام آئل اور آليو آئل شامل ہيں۔ اس وقت 35 کروڑ روپے کي ماليت کا زيتون کا تيل ہر سال درآمد کيا جارہا ہے۔ زيتون کي کامياب کاشت کے بعد تو  سرکاري اور نجي شعبے نے پوٹوہار ميں وادي زيتون کي تشکيل پر کام شروع کرديا ہے۔ اور پاکستان ميں زيتون کے زير کاشت رقبے کو پانچ لاکھ ايکڑ تک بڑھانے کا ہدف قائم کيا ہے۔ ماہرين کے مطابق اگر رقبہ ساڑھے تين لاکھ ايکڑ تک بھي پہنچ گيا تو پاکستان کا شمار دنيا کے دس بڑھے زيتون پيدا کرنے والے ممالک ميں ہونے لگے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here