مہمند ڈیم۔۔۔خواب بنے گا حقیقت۔۔۔۔۔قسط چہارم۔۔۔آخری

0
2060

تحریر: محمد لقمان
مہمند ڈیم کی سائٹ پر تمام تر فوٹیج بنانے اور سیلفیوں کے بعد تمام رپورٹرز اور کیمرہ مین واپس منصوبے کے صدر میٹنگ روم میں آگئے۔ جہاں سے لنچ کے لئے باہر لان میں لگائی گئی کینوپی میں لے جایا گیا۔ قبائلی انداز سے پکا ہوا مٹن موجود تھا۔ اور چاول سے رغبت رکھنے والوں کے لئے بریانی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ اس دوران تکے بھی سرو کیے گئے۔ موسم چونکہ جزوی طور پر ابر آلود تھا۔ اس لیے فروری کے مہینے کا درمیانہ موسم بڑا مزے کا تھا۔ چیرمین واپڈا اور دیگر حکام نے صحافیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ اس دوران بتایا گیا کہ دریائے سوات پر ڈیم بننے سے پن بجلی تو پیدا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ دریائے سوات اور دریائے کابل میں ہر سال آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی چھٹکارا ملے گا۔ خاص طور پر دریائے کابل میں پاٹ تنگ ہونے کی وجہ سے مون سون کے سیزن میں بہاو چاہے ایک لاکھ کیوسک سے بھی کم ہو، سیلاب آجاتا ہے۔ دو ہزار دس میں تو دریائے سوات اور دریائے پنجکوڑہ نے بھی کافی تباہی مچائی تھی۔بالآخر چار بجے کے بعد مہمند سے روانہ ہوئے۔ رستے میں گنے سے گڑ بنانے والے ایک بیلنے پر بھی رکے۔ چھ بجے کے قریب پشاور میں ہوٹل شیلٹن میں آچکے تھے۔


اپنے قائد اعظم یونیورسٹی کے دور کے کلاس فیلو میاں عدیل الدین سے بات کرنے کی کوشش کی تو بات نہ ہوسکی۔ وہ آج کل آڈٹ اینڈ اکاونٹس کے محکمے میں ڈائریکٹر ہیں۔ ہوٹل میں ڈنر کے بعد طے ہوا کہ صبح نو بجے ہر حال میں لاہور کے لئے چل پڑیں گے۔ صبح سویرے اٹھے اور ابھی ناشتہ ہی کیا تھا۔ کہ میاں عدیل الدین کا فون آگیا کہ آدھے پونے گھنٹے کے بعد وہ حیات آباد میں اپنے گھر سے ہوٹل پہنچ جائیں گے۔ تقریباً بتیس سال کے بعد دو دوست مل رہے تھے۔ بالاخر ساڑھے نو بجے میں ہوٹل کے دروازے پر پہنچا تو میاں عدیل اپنی گاڑی سے اتر رہے تھے۔ وقت نے انہیں بہت بدل دیا ہے۔ یقینا تبدیلی میں مجھ میں بھی بہت آچکی ہے۔جنوری انیس سو اٹھاسی کے بعد ملے تو عجب جذباتی کیفیت تھی۔ ویلنٹائن کے دن ایک دوست سے اتنے عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ ایک گھنٹے کے قریب ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر یونیورسٹی دور کی یادیں تازہ کیں۔ انیس سو سولہ میں پشاور گیا تھا تو میاں عدیل سے فون پر ہی بات ہو سکی تھی۔ دس بجے کے قریب لاہور کے لئے روانہ ہوئے تو جہاں مہمند ڈیم منصوبے کی سائٹ کی خوشگوار یادیں ہمارے ساتھ تھیں۔ وہیں تین دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد ایک کلاس فیلو سے ملاقات پشاور کے دورے سے ممکن ہو سکی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here