مہاتیر کے دیس میں ۔۔۔۔۔قسط بارہ

0
3015

تحریر: محمد لقمان

پترا جایا: ملائشیا کا انتظامی دارالحکومت (۱)

پترا جایا شہر تعمیر تو بیسویں صدی کے اواخر میں کیا گیا تھا۔ مگر اس کو تعمیر کرنے والے مہاتیر محمد کی سوچ اکیسویں صدی سے بھی آگے کی تھی۔ اس بات کا اندازہ تو 49 مربع کلومیٹر رقبے پر آباد شہر میں جا کر ہی ہوتا ہے۔میرے دل میں ہمیشہ سے ایک خواہش رہی کہ مستقبل کے اس شہر کو دیکھوں۔آخر قدرت نے یہ موقع دے ہی دیا۔ گئے تو تھے ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں۔ مگر میزبان ادارے ملائشین بائیوٹیکنالوجی انفرمیشن سنٹر نے ایک دن ماحول اور قدرتی وسائل کی وزارت لے کر جانے کا انتظام کردیا۔ تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر جانے کے لئے جب 14 ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور صحافی جب بس میں بیٹھے تو سیاحتی گائیڈ پون کمار نے جدید دور کے اس شہر کے قیام کی پوری تاریخ سنا ڈالی۔ یہ شہر ملائشیا کے پہلے وزیر اعظم تنکو عبدالرحمان پترا الحاج کے نام سے موسوم ہے۔سنسکرت کے لفظ پترا کے لغوی معنی شہزادہ یا بیٹا کے ہیں۔ پترا جایا کے معنی شہزادے کی فتح ہیں۔

1990 کی دہائی کے وسط میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے لئے زمین ریاست سیلانگور سے خریدی گئی۔ اس شہر کی تعمیر میں استعمال ہونے والا 90 فی صد خام مال ملائشیا سے ہی تھا۔ جبکہ صرف 10 فی صد سامان درآمد کیا گیا۔ پورے منصوبے پر 8 ارب ڈالرز سے زائد خرچ آیا۔ اگر اس کا موازنہ اسلام آباد کی تعمیر سے کیا جائے تو صورت حال بہت مختلف نظر آتی ہے۔ ایسا انداز تعمیر ہے کہ لگتا ہے کہ پیسہ پوری ایمانداری سے خرچ کیا گیا ہے۔ 1999 میں ملائشین حکومت کی کوالالمپور سے پترا جایا منتقلی کا عمل شروع ہوگیا۔ ۔ابتدا میں 300 حکام اس نئے شہر میں منتقل ہوئے۔ تقریباً 20 سالوں میں شہر کی آبادی ایک لاکھ نفوس تک پہنچ گئی ہے۔ جو کہ سارے کے سارے سرکاری ملازمین ہی ہیں۔ جونہی اس شہر میں داخل ہوتے ہیں تو ایک عجب وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ کہیں کوئی ٹریفک جام نظر نہیں آتا کہیں افراتفری نہیں ہے۔ دفاتر میں جائیں تو سائلین کی لمبی قطاروں کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ گویا کہ ملائشیا کے اس انتظامی شہر میں کام تو تیزی سے جاری رہتا ہے۔ مگر اسلام آباد کے پاک سیکریٹیریٹ اور لاہور کے سول سیکریٹریٹ کی طرح ہٹو بچو کے مناظر بالکل نظر نہیں آئے۔ وزارت ماحول اور قدرتی وسائل کی عمارت تک پہنچے تو وہاں بائیوسیفٹی ڈائریکٹوریٹ جنرل کے حکام استقبال کے لئے موجود تھے۔ چوتھی منزل تک لے جایا گیا۔ وہاں ملائشیا میں جینیاتی طور پر تبدیل ہونے والے جانوروں اور پودوں کی درآمد کے لئے جانچ پڑتال اور اجازت کے لئے طریق کار کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ دینے والے حکام بظاہر بڑے کم عمر نظر آرہے تھے مگر سب بڑے پڑھے لکھے اور علم و فضل میں بہت آگے تھے۔

سب کے پاس بائیوٹیکنالوجی اور جینٹک انجینرنگ میں پی ایچ ڈی ڈگریز تھی۔ پاکستانی بیوروکریسی کو دیکھا جائے تو ایم اے اردو کرنے والا سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد وزارت تجارت میں چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی شعبے میں بھی ایسی افرادی قوت نظر نہیں آتی جو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے۔ محکمہ بائیو سیفٹی کی ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات ہوئی تو کسی طور پر بھی وہ کسی قسم کی نرگسیت یا احساس برتری کا شکار نظر نہیں آئی۔ اپنے محکمے کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں بغیر کسی لگی لپٹی کے بتا دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here