تحریر: محمد لقمان
سموگ یا فضا میں گردوغبار صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں۔ ملائشیا بھی سال کے کئی ماہ اس کا شکار رہتا ہے۔ کلانگ کی بندرگاہ پر آبنائے ملاکا کے اوپر بھی ایک گردوغبار والی فضا نظر آئی۔ کلانگ پورٹ کے حکام سے کھانے پر بات ہوئی تو انہوں نے فضائی آلودگی کی تمام تر ذمہ داری آبنائے ملاکا کے پار بڑے ہمسائے انڈونشیا پر ڈال دی۔ وجہ بھی وہی بتائی جو کہ ہم اکثر لاہور میں ہر سال آنے والی سموگ کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ یعنی بھارتی پنجاب میں جب کسان دھان کی فصل کی باقیات جلاتے ہیں تو اس سے لاہور اور پاکستان کے دیگر علاقوں کی ہوا مسموم ہوجاتی ہے۔۔ انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد ان کی باقیات کو زمین میں دبانے کی بجائے جلا دیا جاتا ہے۔ یہ دھواں صرف سماٹرا کی فضا کو نہیں خراب کرتا۔ بلکہ پانچ سو کلومیٹر دور آبنائے ملاکا کے دوسری طرف کلانگ اور کوالالمپور پر بھی گردوغبار کی ایک چادر اوڑھ دیتا ہے۔ جن دنوں ہم کوالالمپور میں تھے۔ ایک بھی دن بارش نہیں ہوئی۔ ہر وقت شہر پر ایک گردوغبار کی کیفیت نظر آتی۔ کوالالمپور سے تعلق رکھنے والے ملائشین دوستوں سے شکوہ کیا کہ ہم نے اپنی کتابوں میں ہر روز سہہ پہر کے وقت بارش ہونے کا پڑھا تھا۔ اور سال میں 250 ملی میٹر یعنی 98 انچ تک بارش ہوجاتی ہے۔ مگر یہاں تو آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آیا۔ تو انہوں نے بتایا کہ بارش رت کی باتیں اب کافی پرانی ہوچکی ہیں۔ اب تو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارش کے بغیر ہی گذارا کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ملائشیا کے مختلف علاقوں میں بارش کا سیزن الگ الگ ہوتا ہے۔ جنوب مغربی علاقوں میں بارشیں مئی سے ستمبر کے درمیان ہوتی ہیں جبکہ شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ بارش نومبر سے مارچ تک ہوتی ہیں۔ ایک بات یقیناً بڑی قابل ستائش ہے کہ ملائشیا کا محکمہ موسمیات اس بارے میں کئی ماہ پہلے ہی پیشگوئی کردیتا ہے۔ ماہ اگست میں دو ہفتے تک جاری رہنے والی خشک سالی بھی کوئی اچانک آنے والی بلا نہیں تھی۔ عوام کو بہت پہلے محکمہ موسمیات نے آگاہ کردیا تھا۔ حال ہی میں انڈونشیا نے اپنے کسانوں کو چاول کی فصل کی باقیات کو جلانے سے روکا ہے تاکہ ہمسایہ ممالک کا سموگ اور گردوغبار کے بارے شکوہ دور کیا جاسکے۔ پتہ نہیں اس پر عمل درآمد بھی ہوگا یا نہیں۔ تاہم ہمیں کوالالمپور نے بالکل مایوس نہیں کیا۔ پاکستان واپسی والے دن جب صبح سویرے ہم ناشتہ کرنے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں پہنچے تو کھڑکی سے ایک دم سیاہ بادل دکھائی دیے اور تیز بارش شروع ہوگئی۔ یہ بارش تقریباً دو گھنٹے جاری رہی۔ جب ہم سہہ پہر کو ایر پورٹ جانے لگے تو موسم کی اس کروٹ کی وجہ سے درجہ حرارت کافی قابل قبول ہوچکا تھا۔