مرغی،مہمان اور مریض

0
3498

تحریر: محمد لقمان

آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے پاکستان میں آبادی کی اکثریت مرغی کا گوشت مہمان آنے پر  پکاتی تھی یا حکیم یا ڈاکٹر کے مشورے پر بیمار کے لئے۔ گھر والوں کو تو مرغی اس وقت نصیب ہوتی تھی جب  وہ خود بیمار ہوجاتی اور اس کو مجبوراً ذبح کرنا پڑتا۔ معاشرے میں بہت کم ایسے لوگ تھے جن کے پاس اتنی حیثیت تھی کہ وہ ہرہفتے مرغی کا گوشت پکا سکیں۔ اس زمانے میں دیسی مرغی کے گوشت کی قیمت چار روپے فی کلو تھی جبکہ بکرے کا گوشت سوا روپے فی کلو دستیاب تھا۔ جو دیسی مرغی شہروں اور دیہات میں گھروں میں پالی جاتی تھی ان کی غذا بھی کوڑا کرکٹ اور کیڑے مکوڑے ہوتی تھی۔ گویا کہ صحت مند غذا فراہم کرنے والی مرغی بڑے غیر صحت مند ماحول میں ہی پرورش پاتی تھی۔ انڈے کی پیداوار بھی اسی قسم کے  ماحول میں ہوتی تھی۔ یہ تھی  پاکستان میں پولٹری سیکٹر کی صورتحال۔۔۔ اس کے برعکس  امریکہ اور دیگر  ترقی یافتہ ممالک میں پولٹری کی جدید صنعت 1950 کی دہائِی

میں قائ٘م ہو چکی تھی۔

پاکستان میں تجارتی پولٹری فارمنگ کا آغاز 1963ءمیں ہوا ۔ قومی ایرلائن پی آئی اے نے ابتدا میں اس صنعت میں سرمایہ کاری  کی

اور 1965ء میں کراچی میں پہلا جدید ہیچری یونٹ لگایا۔ اس کے بعد جب صنعتکاروں اور تاجروں کو نئے شعبے میں غیر معمولی منافع کا اندازہ ہوا تو ہر طرف دھڑا دھڑ پولٹری فارمز بننا شروع ہوگئے۔ اس وقت اس صنعت میں 400 ارب روپے سے زائد سرمایہ کاری سے ہزاروں پولٹری فارمز بن چکے ہیں اوردرجنوں کے قریب پراسسنگ یونٹس بھی قائم ہوچکے ہیں۔ جن میں سے پانچ کمپنیوں کا پراسسڈ گوشت کی مارکیٹ میں 80 فی صد سے زائد حصہ ہے۔ ان پراسسنگ  پلانٹس میں عالمی رجحانات کے مطابق مرغی کے گوشت سے مختلف مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ جو نا صرف پاکستان میں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں بلکہ متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک کو بھی برآمد کی جاتی ہیں۔

اس وقت پاکستان میں گوشت کی 40 فی صد سے زائد طلب پولٹری کا شعبہ پوری کر رہا ہے۔پولٹری کمپنیوں کےمالکان کا دعوی ہے کہ اگر پاکستان میں برائلر مرغی کا گوشت موجود نہ ہو تو بکرے کا گوشت ڈھائی  ہزار روپے فی کلو سے کم نہ ملے۔ دیسی مرغی کو پالنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ جب کہ برائلر کے لئے صرف 33 سے 40 دن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور 2 کلوگرام سے زائد وزن کی مرغی ذبح ہونے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ دنیا میں ہر سال پچاس ارب سے زائد مرغیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جب پاکستان میں ان کی تعداد ایک ارب 20 کروڑ ہے جبکہ انڈوں کی سالانہ پیداوار بارہ ارب کے قریب ہے۔۔یوں پاکستان پیداوار کے لحاظ سے گیارھواں بڑا ملک ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستان میں مرغی کا استعمال فی کس سالانہ 6 کلو جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں 41 کلو اور دیگر ممالک میں 17 کلو ہے۔ اس کی وجہ صرف کم پیداوار نہیں بلکہ برائلر مرغی کے بارے میں مختلف قسم کی افواہیں اور خدشات بھی ہیں۔ ان خدشات میں مرغی کے پالنے کے لئے خوراک میں مختلف اسٹیرائڈز اور ہارمون شامل کرنے کی خبریں ہیں۔ ماہر اغذیہ ڈٖاکٹر شگفتہ فیروز کے مطابق اگر مرغی کی غذا میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ تو اس کے انسانی صحت پر برے اثرات آسکتے ہیں۔ جن میں بچوں کی جلد بلوغت جیسے مسائل شامل ہیں۔ اس کے برعکس ماہرین لائیو اسٹاک اور مرغبانی پاکستان میں مرغی کے گوشت کو صحت کے لئے مفید سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ویٹرنری اور اینیمل سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا سمجھتے ہیں کہ یہ پولٹری صنعت کے خلاف سراسر پراپیگنڈہ ہے۔ مرغی کے گوشت کے فوائد زیادہ ہیں اور نقصانات بہت کم۔ اگر دنیا بھر میں کبھی برڈ فلو یا کسی اور قسم کی وبا آبھی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ اس کا اثر ہر لحاظ سے پاکستان پر ہی ہو۔ مگر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے جب یہ خبریں عام ہوتی ہیں تو ہر کوئی جیسے لرز سا جاتا ہے اور مرغی کے گوشت کا استعمال رک جاتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان  نے تقریباً  دوسال پہلے ایک ازخود  نوٹس  کیس  میں  اس سلسلے میں مختلف لیباررٹریوں  اور یونیورسٹیوں کی مدد سےتحقیقات کروائیں  تو تمام خدشات  صرف  افواہیں ثابت ہوئیں۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق چیرمین عبدالباسط  کے مطابق  ایسوسی ایشن نے  ایف آئی اے  کے سائبرکرائم سیل کو بھی درخواست دی ہے کہ سوشل میڈیا  کے ذریعے افواہیں  اڑانے والوں  کے خلاف کاروائی کی جائَے۔ ان حالات میں حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ مرغی کے گوشت سے جڑے ہوئے تمام خدشات کی تحقیقات کروائے تاکہ ہمیشہ کے لئے عوام کو پتا چل جائے کہ مرغی کا گوشت محفوظ ہے یا نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کوئی نہ کوئی ہر وقت سوشل میڈیا پر افواہ ساز فیکٹریاں چلاتا رہے گا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here