تحریر: محمد لقمان
یاد رکھیں شہد کی مکھی صرف شہد ہی پیدا نہیں کرتی۔ اس کا صدیوں سے زرعی شعبے خصوصاً غذائی فصلوں کی افزائش میں اہم کردار رہا ہے۔ ان مکھیوں کی وجہ سے ایک پودے سے دوسرے پودے میں پولن یعنی زردانے کی منتقلی ہوتی ہے۔ اگر یہ منتقلی نہ ہو تو نہ پھول کھلیں اور نہ ہی پھل اور سبزیاں پیدا ہوں۔ مکھیوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہر سال عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے زیر اہتمام دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کا عالمی دن بیس مئی کو منایا جاتا ہے۔ انسان ان مکھیوں سے مختلف قسم کا شہد تو حاصل کر لیتا ہے لیکن ان کی حفاظت کے لئے اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خصوصاً ضرر رساں کیڑے مکوڑوں کے خاتمے کے لئے پودوں پر زہر کے چھڑکاو کے موقع پر یہ خیال بہت کم کیا جاتا ہے کہ اس سے شہد کی مکھیاں بھی مر سکتی ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر دنیا سے شہد کی مکھیاں ختم ہوگئیں تو بہت ساری فصلیں خصوصاً کافی، سیب ، بادام، ٹماٹر اور کوکو بھی اس دنیا سے غائب ہو جائیں گی۔ کیونکہ ان پر پھل پھول اس چھوٹی سی مخلوق کی وجہ سے آتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کے علاوہ تتلیاں، چمگادڑیں اور مختلف اقسام کے بھنورے بھی پھلوں اور سبزیوں کی فصلوں کے لئے ضروری ہیں۔
دنیا میں مکھیوں کی پچیس ہزار سے زائد اقسام ہیں۔ مگر ان میں شہد کی مکھیوں کا حصہ بہت کم ہے۔ دنیا میں پچاس اقسام کی شہد کی مکھیاں ملتی ہیں۔ مگر پاکستان میں صرف چار اقسام کی شہد کی مکھی پائی جاتی ہے۔ ان کا سائز اور پروں کے رنگ اس علاقے کے مطابق ہوتے ہیں۔ جہاں یہ رہتی ہیں۔
شہد کی مکھیوں میں ایک منظم خاندانی نظام ہے۔ یہ چھتوں میں ایک آبادی کی شکل میں رہتی ہیں۔ چھتے میں مکھی کے خاندان میں تین قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ سب سے اہم ملکہ ہے۔ جو کہ پورے خاندان کو چلاتی ہے۔ وہ انڈے دیتی ہے اور نسل کو آگے چلاتی ہے۔ دوسری قسم کی مکھیاں کارکن کہلاتی ہیں۔ ان کا مقصد خاندان کے لئے خوراک کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ خوراک میں پھولوں کے زردانے اور میٹھا رس شامل ہے۔ تیسری اور آخری قسم نکھٹووں کی ہے۔ ان کا کام بھی ملکہ کی طرح مکھیوں کی افزائش نسل میں اہم ہے۔ مگر جب موسم بدلتا ہے اور خوراک کی کمی ہوتی ہے تو ان نکھٹووں کو چھتے سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔
ایک مکھی کی اڑنے کی رفتار پچیس کلومیٹر فی گھنٹے کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے پروں کو ایک سیکنڈ میں دو سو مرتبہ تک پھڑ پھڑا سکتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں شہد کی مکھیاں کم ہوتی جارہی ہیں۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں ہر گھر میں عموماً موسم بہار میں ایک شہد کی مکھیوں کا چھتہ لگ جاتا تھا۔ گرمیوں کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی وہ شہد سے بھر جاتا۔ اس شہد کو نکالنے کے لئے ماہر افراد اپنے منہ اور ہاتھوں پر کپڑا باندھ کر آتے۔ آگ کی دھونی دیتے۔ جب مکھیاں اڑ جاتیں تو چھتے کو تیز دھار آلے سے کاٹتے، موم کو الگ کرکے شہد کا ڈول گھر کے مالک کے حوالے کردیتے۔ اس کام کی اجرت ان دنوں بیس تیس روپے ہوتی تھی۔ مگر اب نہ ملک میں اتنے زیادہ پودے یا درخت ہیں کہ جن سے شہد کی مکھیاں رس لے سکیں اور نہ ہی بڑے گھر ہیں جہاں مکھیوں کا چھتہ دیر تک انسانی دسترس سے بچا رہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے شہد کی ضروریات پوری کرنی ہیں تو مگس بانی کو فروغ دینا ہوگا۔ اس سلسلے میں مری اور خیبر پختون خوا کے علاقوں میں کافی کام ہوا ہے۔ وہاں جائیں تو آپ کو زمین پر چوکور لکڑی کے کیبن پڑے نظر آتے ہیں۔ جن میں مکھیوں کو پالا جاتا ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں مختلف درختوں اور فصلوں کے قریب شہد کی مکھیوں کو پال مختلف ذائقوں والا شہد حاصل کیا جاتا ہے۔ مثلاً سورج مکھی کی فصل کے قریب مکھیاں ایسا شہد پیدا کریں گی۔ جس میں سورج مکھی کی خوشبو آئے گی۔