تحریر: محمد لقمان
وزیر اعظم نواز شریف ایک مرتبہ پھر اقتدار کے سنگھاسن سے ہٹا دیے گئے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا وہ اپنے تینوں ادوار میں پانچ سالہ مدت پوری کرنے سے پہلے ہی فارغ کیے گئے ہیں۔ اس دفعہ صدر یا فوجی سربراہ سے تنازعہ ان کے زوال کی وجہ نہیں بنا۔ بلکہ پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بعد ہونے والے عدالتی تحقیقات نے ان کو گھر بھیجا ہے۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹوں ، بیٹی، داماد اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ نواز شریف نے خارزار سیاست میں 36 سال پہلے رکھا جب نوازشریف کی سیاسی تربیت پاکستان کے فوجی آمر جنرل محمد ضیاءالحق کے زیر سایہ ہوئی۔ ضیاء دور میں وہ لمبے عرصے تک صوبائی حکومت میں شامل رہے۔ وہ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981ء ميں صوبائی کابينہ ميں بطور وزيرِخزانہ شامل ہو گئے۔
آمریت کے زیرِ سایہ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات ميں مياں نواز شریف قومی اور صوبایی اسمبليوں کی سيٹوں پر بھاری اکثريت سے کامياب ہوئے۔ 9 اپريل ،1985ء کو انھوں نے پنجاب کے وزيرِاعلٰی کی حيثيت سے حلف اٹھايا۔ مئی 1988ء میں جنرل ضياءالحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم مياں نواز شريف کو نگران وزیراعلٰی پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔ 1988میں اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا گیا تو عام انتخابات میں نواز شریف دوبارہ پنجاب کے وزیر اعلی منتخب ہوگئے۔ اسی طور پر نواز شریف اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا آغاز ہوا۔صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کی برطرفی کے بعد انتخابات ہوئے۔6 نومبر 1990ء کو نواز شريف نے پہلی مرتبہ بطور وزیر اعظم حلف اُٹھايا۔ تاہم وہ اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکے اور ان کو اس وقت کے صدر نے ان کو ان کے عہدے سے فارغ کر ديا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ اعظمٰی نے ايک آئينی مقدمے کے بعد انھيں دوبارہ ان کے عہدے پہ بحال تو کر ديا،ليکن ان کو جولائي 1993ء ميں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفا دينا پڑا۔ تیسری مرتبہ وہ 1997 میں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم اکتوبر 1999ء میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کے کی تعیناتی کی کوشش کی۔مگر ایک فوج بغاوت کے بعد ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ فوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوجی حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست، 2007ء کو عدالت عظمٰی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ پابندیوں کی وجہ سے وہ تو انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ مگر پنجاب میں ان کے بھائی شہباز شریف کی حکومت بن گئی۔ 2013 کے اںتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی پر وہ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ مگر اس بار ان کی حکومت کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مخالفت کا سامنا رہا۔ اسلام آباد میں دھرنے ہوئے اور سیاسی خلفشار بھی پورے عروج پر رہا۔اپریل 2016 میں پانامہ انکشافات آئے تو وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کی آف شور کمپنیوں کا بھی پتہ چلا۔ اس کے خلاف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد سپریم کور ٹ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات کا آغاز ہوا۔ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی۔ کئی مہینوں تک کیس چلا جس کے دوران کئی ایسے موڑ بھی آئے جہاں حکمرانوں کی بریت نظر آئی۔ مگر آخر 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا۔ یوں خاندان شریفیہ کے زوال کا آغاز ہوگیا۔ اب نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو باقی مدت کے لئے وزیر اعظم بنانے کے اشارے مل رہے ہیں۔ لیکن نئے وزیر اعظم کو بھی ماڈل ٹاون سانحہ کے حوالے سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یوں خاندان شریفیہ کا پینتیس سالہ اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔