سچ یہ بھی ہے: تمباکو نوشی میں کمی کیسے ہو

0
2519

تحریر: محمد لقمان

تقریباً پندرہ سال پہلے اکتیس مئی کو یوم انسداد تمباکو نوشی کے موقع پر ایک سیمینار کی کوریج کے لئے لاہور کے مال روڈ پر الحمرا ھال پہنچا تو ایک سوٹڈ بوٹڈ بابو میرے پاس سے گذرے ۔وہ سگریٹ کے تیزی سے کش لگا رہے تھے۔ ہال نمبر تین کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے انہوں نے آخری کش لگایا ۔ سیڑھیوں پر بٹ پھینکا ، جوتے کی ایڑھی سے کچلا اور ہال کے اندر داخل ہوگئے۔ سیمینار کا آغاز ہوا تو پہلے مقرر وہی صاحب تھے۔ وہ سگریٹ نوشی کے خلاف خود گرجے برسے۔ نوجوانوں سے وعدہ بھی لیا کہ وہ کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ سامعین کی اکثریت اس صاحب کی تمباکو نوشی کے خلاف شعلہ بیانی سے بہت متاثر نظر آئی۔ مگر میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہمارا سگریٹ نوشی کے خلاف جہاد کا یہی عالم رہا تو پتہ نہیں کہ کب تک ہر سال لاکھوں افراد کینسر اور دیگر امراض کا شکار ہو کر مرتے رہیں گے۔ آج بھی یہی صورت حال فرد اور ریاست کی سطح پر جاری ہے۔ اس وقت بھی وفاقی بجٹ بناتے ہوئے سینکڑوں ارب روپے کے محاصل کا ھدف سگریٹ ساز ادارے اور تمباکو کی فصل ہی ہوتی ہے۔ جس میں سے سو ارب روپے کے قریب ریونیو ہر سال قومی خزانے میں آ ہی جاتا ہے۔ اس ریونیو کی وجہ سے ریاست پاکستان کو ہر سال ڈیڑھ لاکھ کے قریب ایسی اموات سے آنکھیں چرانی پڑتی ہے جو کہ تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہوتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کے ان پندرہ ممالک میں شامل ہے۔ جہاں تمباکو کا استعمال زیادہ ہونے کی وجہ سے صحت سے متعلق زیادہ مسائل آ رہے ہیں۔ دو ہزار انیس کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی بیس کروڑ آبادی میں سے تقریباً چار کروڑ افراد روائتی سگریٹ، حقے ، الیکٹرک سگریٹ یا تمباکو کی کسی اور شکل کا استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں سگریٹ کی مارکیٹ کا کل حجم اسی ارب سگریٹ سٹکس ہیں۔ جن میں سے تقریباً چھپن ارب مقامی صنعت پیدا کرتی ہے جبکہ باقی غیر قانونی طور پر دیگر ممالک سے آتے ہیں۔ سگریٹ کی سمگلنگ کی وجہ سے تقریبا ً چوالیس ارب روپے کا نقصان قومی خزانے کو ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے انسداد تمباکو معاہدہ کا دستخط کنندہ ہونے کے سبب پاکستان کو سگریٹ نوشی کو روکنے کے لئے ٹیکسوں میں انتہائی اضافہ کرنا تھا۔ لیکن یہاں مخصوص وجوہات کی بنا پر سگریٹ کی پیداوار یا استعمال پر بھاری ٹیکس لگائے نہیں گئے۔ اس کے برعکس بھارت اور بنگلا دیش میں سگریٹ پر ستر فی صد کے قریب ٹیکس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تمباکو کے زیر کاشت رقبے میں زیادہ کمی نہیں لائی جاسکی۔ اس وقت تمباکو کی زیادہ تر کاشت صوبہ خیبر پختون خوا کے اضلاع چارسدہ، مردان، نوشہرہ اور صوابی میں ہوتی ہے۔ اگرچہ تمباکو کی فصل پاکستان کے کل زیر کاشت رقبے کا اعشاریہ دو پانچ فی صد ہے۔ مگر اس سگریٹ سازی کی اقتصادی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ساڑھے تین لاکھ افراد کا روز گار تمباکو کی کاشت اور سگریٹ سازی سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں تمباکو کے پچھتر ہزار کاشت کار ہیں۔ جن میں سے پینتالیس ہزار صوبہ خیبر پختون خوا میں ہیں۔ جو ہر سال پچاسی ملین کلوگرام ورجینیا تمباکو پیدا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمباکو کے کاشت کاروں کے لئے متبادل روز گار کا انتظام نہیں ہوتا ۔ سگریٹ اور تمباکو کی دیگر اقسام کے استعمال کے خلاف کوئی مہم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کچھ عرصہ پہلے امریکی ادارے۔۔۔یو ایس ایڈ نے خیبر پختون خوا کے تمباکو اور پوست کے کاشتکاروں کو سبزیاں کاشت کرنے کے لئے مختلف ترغیبات کا پروگرام شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں راقم کو بھی مردان، سوات ، چارسدہ اور پشاور کے اضلاع میں جانے کا موقع ملا۔ سینکڑوں کاشتکاروں نے ٹنل فارمنگ کے ذریعے ٹماٹر، کھیرے اور دیگر سبزیوں کی کاشت کو اپنا لیا ہے۔ مگر ابھی بھی بہت زیادہ زور لگانے کی ضرورت ہے۔ اگر اشرافیہ سگریٹ نوشی کو چھوڑ دے تو خود بخود عام عوام اس کو چھوڑنے کو تیار ہو جائے گی مگر جب کوئی وفاقی یا صوبائی وزیر اسمبلی کی بلڈنگ یا اپنے دفتر میں ہی سگریٹ سلگا لے اور اس پر تفاخر کا اظہار کرے تو سگریٹ نوشی کی لعنت سے چھٹکار ا کبھی بھی حاصل نہیں ہوگا۔ سگریٹ کی ڈبیا پر کینسر سے ڈرانے کے لئے جتنے مرضی پیغام لکھ دیے جائیں۔ جب تک ملک میں تمباکو کی کاشت اور سگریٹ سازی کے کارخانے موجود ہیں۔ سگریٹ نوشی ختم نہیں ہوگی۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت سگریٹ سازی کو ریونیو کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لئے کوشش کرے۔ کیونکہ جب بانس نہیں ہوگا تو بانسری بھی نہیں بجے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here