تحریر: محمد لقمان
ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے 18 ویں صدی میں ہندوستان پر حملہ کیا اورپنجاب سمیت متعدد علاقے فتح کرکے دہلی تک جا پہنچا۔ روائت ہے کہ جب فاتح بادشاہ کو ھاتھی کی سواری پیش کی گئی تو اس نے کہا کہ اس کی لگام کہاں ہے۔ تو بتایا گیا کہ اس کا اختیار مہاوت کے پاس ہوتا ہے۔ ۔ نادر شاہ نے یہ کہتے ہوئے سوار ہونے سے انکار کردیا کہ جس سواری کا اختیار اپنے پاس نہ ہو ۔ اس پر سوار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو تھا نادر شاہ کا جواب۔ مگر مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ جب بھی اقتدار کے ہاتھی پر بیٹھنے کا کسی سیاست دان کو موقع ملا تو وہ فوراً اس پر سوار ہوگیا۔ اس نے اس بات کا کبھی خیال نہیں کیا کہ اختیارات کی باگ ڈور اس کے پاس ہے یا اسے اس کے لئے کسی اور کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعد جتنے بھی حکمران آئے ان کو سکون سے حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے گیارہ سالوں میں تو اتنے حکمران بدلے گئے کہ ایک مذاق بن گیا۔ یہاں تک ایک لطیفہ بن گیا کہ ھمسایہ ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے گیارہ سالوں میں اتنے پاجامے نہیں سلوائے جتنے پاکستانی حکمران بدل گئے۔ عجیب و غریب بات ہے کہ اقتدار کے ہاتھی سے گر کر بہت سارے جان گنوا بیٹھے۔ ۔ بہت ساروں کو اس سے اتار دیا گیا ۔ لیکن اقتدار کی لیلی سے محبت کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہوسکی۔ کئی مرتبہ تو اقتدار کی ہوس میں لوگ ہاتھی پر سوار حکمران کی مہاوت سے شکایت بھی کردیتے ہیں۔ کہ مملکت پاکستان میں اقتدار کے ہاتھی پر سوار سیاستدان اپنی سوچی ہوئی منزل کی طرف جا نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اکثر ریاست اور حکومت کا رخ ایک ہی طرف نہیں ہوتا۔ دنیا کے کئی ممالک میں ہاتھی کی جگہ گھوڑے نے لے لی ہے۔ جس کی بھاگ اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جو اس کی کمر پر بیٹھا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار گھوڑا سرکش بھی ہوجائے تو اس کو سدھار لیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا وقت پاکستان میں بھی آجائے جب حکمرانوں کے پاس اقتدار بھی ہو۔