تحریر: محمد لقمان
قیام پاکستان سے پہلے سے ہی برصغیر کے لوگ منہ کی مٹھاس کے لئے گنے یا کماد سے بنا گڑ ، شکر یا دیسی چینی استعمال کرتے رہے ہیں۔ انیس سو سینتالیس کے بعد پاکستان کی مختلف حکومتوں کا زور چونکہ درآمدات کم کرنے پر ہی رہا ۔ چینی کی مقامی پیداوار کو یقینی بنانے کے لئے ہر دور میں شوگر ملیں لگتی رہیں۔ اس کے لئے کسی ایگرو کلائمیٹ زون کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ اس وجہ سے کبھی کپاس کے زیر کاشت علاقے متاثر ہوئے تو کبھی وسطی پنجاب میں مختلف فصلوں کی جگہ گنے نے لے لی۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں کپاس کی بجائے گنے کی فصل کو فروغ دیا جا ر ہا ہے۔ جس سے جہاں کپاس جیسی اہم نقدآور فصل کی پیداوار کم ہوئی وہیں گنے کی فصل کی وجہ سے پانی کا استعمال بھی بڑھا ہے۔ آخر اس کا حل کیا ہے۔ کئی ماہر غذائی تحفظ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی بڑھتی قلت کی وجہ سے اب گنے اور چاول کی کاشت ترک کر دینی چاہیے اور چینی اور چاول کی ضرورت درآمد کے ذریعے پوری کر لی جائے۔ سائنسدانوں کا ایک طبقہ گنے کی بجائے چقندر سے چینی بنانے کے حق میں ہے۔ ان کے مطابق چقندر کو اگانے میں گنے کی نسبت بہت کم پانی استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا اگر گنے کے کاشتکار چقندر کی طرف آجائیں تو ان کا شوگر ملوں کے ہاتھوں استحصال کم ہوجائے گا۔ مگر یہ بات بڑھی غیر سطحی سی لگتی ہے۔ چقندر بیچنے کے لئے بھی تو کاشتکاروں کو ملوں کے پاس ہی جانا پڑے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ کم مٹھاس کی وجہ سے چقندر سے بننے والی چینی عوام میں مقبول نہیں ہوگی۔
اس سارے مسائل کا غیر روائیتی حل دنیا کے دیگر ممالک میں سٹیویا کے پودے کی شکل میں مل گیا ہے۔ اسٹیویا گل داودی کے خاندان کا ایک پودا ہے۔ جس کو چین، برازیل، جاپان، بھارت اور پیراگوئے میں کاشت جاتا ہے۔ پاکستان میں اس پودے کی کاشت کے تجربات کامیاب رہے ہیں۔ مگر ابھی تک اس کو تجارتی بنیادوں پر کاشت نہیں کیا جاسکا۔ کہا جاتا ہے کہ سٹیویا کے پتوں سے بننے والی مصنوعات گنے سے بننے والی چینی سے دوسو گنا زیادہ میٹھی ہوتی ہیں۔ اسٹیویا کے پتوں میں مٹھاس زیادہ ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ اس کا مزہ عجیب و غریب ہوجاتا ہے۔ اس لیے گلوکوز کے ساتھ ملا کر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں سٹیویا سے بنا ہوا سویٹنر نوکل کے نام سے مارکیٹ ہو رہا ہے۔ چونکہ سٹیویا کے پتوں کی مٹھاس میں زیادہ توانائی نہیں ہوتی ۔ اس لیے اس کو نو کل کہا جاتا ہے۔ زیادہ کیلوریز نہ ہونے کی وج سے سٹیویا سے ملنے والی مٹھاس کو ذیابیطس کے مریضوں کے لئے معقول سمجھا جاتا ہے۔ یہ بلڈ شوگر کو نہیں بڑھاتی اور اس کی کئی دیگر طبی صفات بھی ہیں۔ اس لیے سٹیویا کے پتوں کے چورے کو ٹوتھ پیسٹ کی تیار ی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان میں اس کی تجارتی کاشت کی جائے تو گنے کی نسبت کم ازکم سو گنا کم پانی استعمال ہوگا۔ اس کی فصل کو پانی دینے کے لئے مائکرو اسپرنکلر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ آلات بہت مہنگے ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں ہفتے کے بعد روائیتی آبپاشی سے بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ اس پودے پر سنڈی اور کیڑے کا بھی بہت کم حملہ ہوتا ہے۔ پودے پر پھول آنے سے پہلے اگر پتے اتار لیے جائیں تو وہ زیادہ میٹھے ہوتے ہیں۔ پودے سے پتے اتارنے کے بعد ان کو سائے میں سکھانے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔ جب پتے سوکھ جائیں تو ان کا پاوڈر بنا لیا جاتا ہے۔ جس کو چائے میٹھا کرنے اور دیگر مصنوعات میں استعمال کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ایکڑ سے ساٹھ سے ستر من پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ سٹیویا کے پتے کتنے میٹھے ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چینی کے آدھے کپ کی نسبت پتوں کے سفوف کے چھ ٹی اسپونز زیادہ مٹھاس پیدا کردیتے ہیں۔
اسٹیویا کے طبی فوائد
سٹیویا بلڈ پریشر کو کم سطح پر برقرار رکھتا ہے اور شوگر کو بڑھنے سے روکتا ہے۔ دانتوں میں کیڑا نہیں لگنے دیتا۔ اس میں کیلشیم بھی کافی مقدار میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہڈیوں کے امراض سے بچا جاسکتا ہے۔
آخری بات
اگر ملک میں ہر سال چینی کے بحران سے بچنا ہے۔ تو مٹھاس کے لئے مختلف متبادل فصلوں یا مصنوعات کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ورنہ ہر سال سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ والے لوگ گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام کو رلاتے رہیں گے۔