سفر جنوب کے۔۔۔۔قسط پانچ

0
1870

پنجابی آبادگار اور سندھ میں زراعت
تحریر: محمد لقمان
ہائبرڈ چاول کے بیج تیار کرنے والی چینی اور پاکستانی کمپنیوں کی کاشتکاروں کے لئے تقریب کے بعد کچھ وقت کھیتوں میں گذارا ۔ اپنے اپنے چینل کے لئے نیوز پیکج کے لئے کام کیا۔ کسانوں اور ماہرین سے بات کی۔ اس کے بعد علاقے کے ایک بڑے زمیندار محمد اقبال کے گولارچی شہر میں واقع گھر چلے گئے۔ محمد اقبال کے شاید دادا یا پڑدادا پنجاب سے آکر سندھ آباد ہوئے تھے۔ اب گولارچی کے دیہات میں اس کی پانچ سو ایکڑ زمین ہے اور وہ بڑے متمول زمیندار ہیں۔ ایک وسیع و عریض گھر میں رہتے ہیں۔ جس میں آرائشی پھولوں کے علاوہ مختلف اقسام کے درخت بھی لگائے ہوئے ہیں۔ پنجابیوں کی ایک بڑی تعداد انیس سو ایک میں دریائے سندھ سے نکالی گئی نارا کینال اور انیس سو بتیس میں سکھر بیراج کی زمینیں آباد کرنے کے لئے آئے۔ پنجابیوں کی اندرون سندھ آخری ھجرت انیس سو ساٹھ کی دہائی میں نئے بیراج بننے کے بعد ہوئی۔ دیہی سندھ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مقامی زمینداروں کے ساتھ ساتھ دیہی سندھ کے پنجابی آبادگاروں نے زراعت کی ترقی میں میں زیادہ بہتر اور بنیادی کردار ادا کیا۔ دیہی سندھ میں ھنرمندی کے شعبوں میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ دیہی سندھ میں کاروباری شعبے کو مضبو ط کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت ضلع بدین میں پانچ فی صد کے قریب آبادی پنجابی بولنے والوں کی ہے۔ جو کہ چالیس پنچاس سال پہلے اس سے کہیں زیادہ تھی۔ مگر انیس سو ستر کی دہائی میں سندھ میں ہونے والے لسانی فسادات کی وجہ سے پنجابی کاشتکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد پنجاب واپس چلی گئی۔ فسادات کے بعد سندھ میں رہ جانے والے پنجابی آباکاروں نے اب مقامی رسوم و رواج اور ثقافت کو اپنا لیا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی پنجابی زبان نہ بولے تو یہ ہر لحاظ سندھی ہی نظر آتے ہیں۔ چک اٹھاون کے آبادکاروں کے رہنما ماما عبدالستار بھی پہلی نگاہ میں ایسے ہی دکھائی دیے۔ محمد اقبال بھی کھانے کے وقت سندھی زمینداروں کے ساتھ مقامی زبان میں ہی گفتگو کرتے رہے۔ مگر ہمارے ساتھ بات کرتے ہوئے اردو اور پنجابی کا سہارا لیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس سیاسی جماعت کو پسند کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ پیپلزپارٹی کو ۔ انیس سو اٹھارہ کے انتخابات میں انہوں نے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا اور اگلے انتخابات میں بھی اسی جماعت کو ووٹ دیں گے۔ پنجابی آبادکار صوبہ سندھ کی تقسیم کے بھی خلاف ہیں۔ ان کے مطابق اگر کراچی کو الگ صوبے میں بدلا گیا تو اندرون سندھ میں جہاں مہاجروں کے لئے مشکلات آئیں گی وہیں پنجابی آبادی بھی متاثر ہوگی۔ اس لیے بہتر ہے کہ صوبہ سندھ کی وحدت کو نہ چھیڑا جائے۔ لونگ پنگ کمپنی کا کنٹری ڈائریکٹر لیو بھی انگریزی کے علاوہ اب سندھی اور پنجابی کے الفاظ سیکھ گیا ہے۔ اس لیے وہ بھی اس موقع پر کاشتکاروں کے ساتھ ہر کسی کی چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔ کھانے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا تو گونی کینال کے کنارے پر ہندو مذہب کو ماننے والے بھیل قبیلے کے افراد کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ پورے بازووں پر رنگ برنگی چوڑیاں چڑھائے خواتین اپنی جھونپڑیوں کے باہر مختلف کام انجام دینے میں مصروف تھیں۔ جبکہ ان کے مرد چارپائیوں پر آرام فرما رہے تھے۔ ان کا مزاج بھی پنجاب کے اوڈھ اور دیگر خانہ بدوش اقوام سے ملتا ہے۔ جہاں روٹی روزی کمانے کی ذمہ داری خواتین کو تفویض ہے اور مرد حضرات ہر قسم کے نشے سے اپنی زندگی کو آسان بنا لیتے ہیں۔ گولارچی سے سجاول ہوتے ہوئے ٹھٹھہ کے قریب کراچی جانے والی دورویہ کیرج وے پر آئے تو سفر میں روانی آگئی۔ یہ آسان سفر بھی صرف پینتالیس پچاس کلومیٹر کا ہے۔ اس کے بعد گھارو اور دھابیجی تک سڑک سندھ بھر کی سڑکوں کی طرح کی ہے۔ کراچی شہر سے ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے شاہراہ فیصل پر گلستان جوہر موڑ پر ایک چائے خانہ پر رکے تو وہاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ موجود تھے۔ گویا کہ کراچی ایک منی پاکستان ہے۔ چائے کے بعد رمادہ ہوٹل جانے کے لئے چل پڑے۔ مگر رستے میں ہی سب کا کراچی پریس کلب جانے کا ارادہ بن گیا۔ جہاں کراچی پریس کلب کے سیکرٹری ارمان صابر اور ایل پی جی ڈسٹریبیوٹرز ایسوسی ایشن کے چیرمین عرفان کھوکھر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here