تحریر : محمد لقمان
13 اپریل کی شام لاہور کے مرکزی علاقے چیرنگ کراس میں میڈیکل اسٹور مالکان کے دھرنے کے دوران دہشت گردوں
نے خودکش حملہ کیا تو کئی روز تک پوری قوم اور قانون نافذ کرنے والے چوکنا رہے۔ جگہ جگہ چیکنگ ہوتی رہی اور شہر کی نواحی آبادیوں میں ہر رات کو چھاپے پڑتے رہے۔ مگر چاند کی یہ چاندنی چند روز کے لئے ہی تھی۔ پھر وہی دن اور وہی راتیں۔ پولیس ناکے تو ضرور لگاتی رہی ۔ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لئے نہیں بلکہ اپنی کمائی کے لئے۔ حتی کہ 24 جولائی کی سہہ پہر آگئی۔ جب دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر لاہور کو نشانہ بنایا ۔ اس بار نشانہ وزیر اعلی شہباز شریف کی ماڈل ٹاون رہائش گاہ سے ایک کلومیٹر بھی دور نہ تھا۔ 25 سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں 9 پولیس والے بھی تھے۔ دھماکے کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ مگر یہ ہائی الرٹ کتنی دیر تک چلے گا۔ دو سے چار دن ۔ پھر وہی ڈھیلی ڈھالی سیکیورٹی ۔دعوی یہ ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ لیکن دہشت گرد بار بار دسہرے کی طرح سر اٹھا لیتے ہیں۔ گویا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری چومکھی تو ہم پورے دھیان سے نہیں لڑ رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دشمن کو خلا ملتا ہے وہ فائدہ اٹھا لیتا ہے۔
تقریباً ڈھائی سال پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ پشاور میں 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں کے باہر اور اندر سیکیورٹی انتظامات کو بڑھا دیا گیا تھا، پنجاب میں سردیوں کی چھٹیوں کو غیر معمولی طوالت دی گئی اور ہزاروں اسکولوں کو اپنی چار دیواری بلند کرنے اور خار دار تار لگوانے تک بند رکھا گیا لیکن کچھ ہفتوں کے بعد ہی حفاظتی انتظامات کم ہونا شروع ہوگئے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے باہر پڑی ریت کی بوریاں غائب اور سیکیورٹی گارڈز کی خالی مچانیں نظر آنے لگیں، اب ایک سال کے بعد تعلیمی اداروں کے باہر محافظ خال خال ہی موجود ہیں۔
سیکیورٹی کی ایسی ہی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلی ہے، کل 2 درجن کے قریب طلبہ، سیکیورٹی گارڈز اور اساتذہ شہید کردیئے گئے ہیں، اس بار بھی دہشت گردوں کی تعداد 4 سے 5 تک ہی تھی۔
آخر خیبر پختونخوا جیسے حساس صوبے میں دہشت گرد ایک یونیورسٹی میں کیسے داخل ہوگئے، یہ معمہ تو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی حل ہوگا، یہ واقعہ تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کے بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خبردار کرنے کے باوجود ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکش حملہ آوروں کو روکنا کوئی آسان کام نہیں لیکن دہشت گردی کے واقعے کے چند دن بعد ہی انتظامات کو نرم کردینا بھی قتل و غارت کے ایک اور واقعے کی بنیاد فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
اس وقت پاکستان میں دہشت گرد ریاست کے ساتھ ایک چو مُکھی جنگ کھیل رہے ہیں، جہاں بھی آنکھ جھپکی دشمن نے فائدہ اٹھا لیا، یہاں صرف حکومتی ادارے ہی سیکیورٹی کے ذمہ دار نہیں بلکہ قوم کے ہر شعبے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کرائے پر مکان دیتے ہوئے صرف روپے پیسے کو نہیں، کرائے دار کے پس منظر کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ کہیں کسی دہشت گرد کو تو نہیں گھر میں پناہ دی جارہی، ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک افراد کو سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہوئے ضرور دیکھنا چاہئے کہ کہیں وہ روپے پیسے کے لالچ میں دھماکا خیز مواد یا اسلحہ تو منتقل نہیں کررہے۔
پولیس بھی ناکوں پر نذرانے جمع کرنے کی بجائے اسلحہ برداروں اور قاتلوں کو پکڑے، اس کے ساتھ ساتھ فوج اور دیگر اداروں کو ایک مربوط انداز میں قومی ایکشن پلان کو جاری رکھنا ہوگا، اس سلسلے میں کسی خاص نسل یا فقہ کے لوگوں کو ہدف بنانے کی بجائے خاص ذہن کو ختم کرنا ہوگا۔
قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن جاری رہے تاہم اس کے ساتھ ملک کے بڑے چھوٹے شہروں اور دیہات میں ایسے مذہبی اداروں پر نظر رکھنی ہوگی جو مبینہ طور پر انتہاء پسند خیالات کو فروغ دے رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو بھی پوائنٹ اسکورنگ روک کر ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا، کسی بھی صوبے میں اگر دہشت گردی ہوتی ہے تو صرف اس کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں، پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
اب جنگیں صرف سرحدوں پر ہی نہیں لڑی جاتیں، دہشت گردی کیخلاف جنگ ملک کی سرحدوں کے اندر لڑنی پڑتی ہے، یہ قوموں کا احساس ذمہ داری ہی ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں ایسے واقعات ہونے سے بہت پہلے ہی عوام مشکوک افراد کے بارے میں پولیس کو آگاہ کردیتے ہیں، اس طرح کوئی بڑا سانحہ نہیں ہوتا، کاش پاکستان میں بھی صرف تنقید کرنے کی بجائے ہر کوئی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اپنا اپنا کردار ادا کرے، صرف حادثوں کے بعد ہی حفاظتی انتظامات بڑھانے کی بجائے دہشت گردی کیخلاف مستقل جنگ لڑنی ہوگی