خار زار صحافت۔۔۔۔قسط تئیس

0
2747

جہلم کا پانی اور شاہ پور کی تباہی

تحریر: محمد لقمان

لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب ان دنوں سرگودھا جانے والی کوچز کا اڈہ تھا۔ لاہور۔ اسلام آباد موٹر وے تو تھا نہیں۔ اس لیے لاہور سے شیخوپورہ سے ہوتے ہوئے سرگودھا پہنچا تو سہہ پہر ہوچکی تھی۔ اس کے بعد ہوٹل کو تلاش کرنے کا مرحلہ پیش  آیا۔ کچہری کے پاس مالبرو ہوٹل میں بالآخر کمرہ مل گیا۔ ہوٹل مینجر نے قیام کی طوالت کے بارے پوچھا تو بتایا کہ کم ازکم ایک ہفتہ کا قیام ہوگا۔ مگر بعد میں دفتر کی مہربانی سے یہ قیام دو ہفتے تک پہنچ گیا۔ مالبرو ہوٹل شہر کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے دوسرے شہروں سے آنے والے لوگوں میں بہت مقبول تھا۔ ان دنوں کمرے کا کرایہ صرف دو سو روپے تھا۔ دفترسے  ایڈوانس کی رقم  تقریباً دو ہزار روپے ملی تھی۔ اگلی صبح کمشنر سرگودھا کے دفتر پہنچا۔ پی اے نے پیغام کمشنر کے پاس بھیجا تو انہوں نے فوری طور پر اندر بلا لیا۔ شاید کمشنر کا نام شمشیر علی خان تھا۔ بڑی بڑی مونچھوں کے مالک سفید رنگ کا روائتی شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے۔ سر پر شملے والی پگڑی اور سامنے پائپ والا حقہ پڑا تھا۔  میں نے ان سے سرگودھا ڈویژن میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے بات کی تو انہوں نے  اعداد و شمار کے لئے ایک ما تحت سے ملادیا۔ انہیں اعداد وشمار کی بنیاد پر میں نے سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کو چنا۔ اگلے دن صبح  سویرے ضلع سرگودھا کی تحصیل اور تاریخی قصبے شاہ پور پہنچا تو دریائے جہلم کی طغیانی کی وجہ سے وہاں تباہی کے مناظر ہی نظر آئے۔ اس  شاہ پور صدر کے قصبے میں تین سے چار فٹ گہرا پانی کئی روز تک کھڑا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے عمارتوں پر ابھی تک نمی تھی۔ متعدد گھروں کی دیواروں میں دراڑیں نظر آئیں۔ جانی نقصان تو زیادہ نہیں ہوا تھا مگر مختلف بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ جہاں پہلے سے ہی دواوں کی قلت تھی۔ شاہ پور صدر سے تقریباً سات آٹھ کلومیٹر دور شاہ پور سٹی تک جانا ہی بہت مشکل ہوگیا۔ پانی میں جہاں انسان چل رہے تھے تو وہیں سانپ بھی نظر آئے۔ ٹرانسپورٹ کا چونکہ کوئی اور ذریعہ دستیاب نہیں تھا۔ اس لیے ایک ٹریکٹر پر بیٹھ کر شاہ پور سٹی پہنچا۔ راستے میں ایک ایسی مردہ گائے نظر آئی جس کا سر پانی کی اچھال کی وجہ سے ایک درخت کے دوشاخے میں پھنسا ہوا تھا۔ کسی ستم ظریف نے اس گائے کی چمڑی بھی اتار لی تھی۔ لوگوں سے ملا تو تقریباً ہر شخص کی ہی درد بھری داستان تھی۔ سیلاب کے پانی نے ان کو کیس حال میں نہیں تھا۔ حکومتی کاروائیاں بھی بہت محدود تھیں۔ ایک دن شاہ پور کے مختلف علاقوں میں گذار کر سرگودھا واپس پہنچا تو رات ہوچکی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here