ایف ڈی اے افسران کو ہتھکڑیاں لگ گئیں
تحریر: محمد لقمان
مارچ انیس سو ستانوے میں ایک شام پی آئی ڈی فیصل آباد کے انچارج نصیر احمد رند کا فون آیا کہ اگلی صبح وزیر اعظم نواز شریف سرکٹ ہاوس میں ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کریں گے۔ اس لیے صبح نو بجے وہاں پہنچ جائیں۔ میں اور ساجد علیم وقت مقررہ پر سرکٹ ہاوس پہنچ گئے۔ سخت سیکیورٹی کے حصار میں گیارہ بجے کے قریب وزیر اعظم نواز شریف ، پرنسپل سیکرٹری اے زیڈ کے شیردل اور چوہدری شیر علی رکن قومی اسمبلی آگئے۔ اس کے علاوہ فیصل آباد کے مقامی سیاستدان موجود تھے۔ وزیر اعظم اور ان کے ہمراہی کرسیوں پر بیٹھے تو ان کے سامنے ایف ڈی اے کے مینجنگ ڈائریکٹر سید طاہرحسین بخاری اور ڈی ایم ڈی اشفاق بھٹی کو ملزمان کے طور پر پیش کیا گیا۔ وزیر اعظم نے افسران پر کرپشن کے الزامات کی سرسری سماعت کی اور ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ ہتھکڑیوں کی جھنکار سنائی دی اور دونوں افسر گرفتار ہوگئے۔ حکم سنتے ہی اشفاق بھٹی وزیر اعظم کے قدموں میں جا گرا۔ مگر وزیر اعظم کا دل نہ پسیجا۔ یوں دو سینیر ترین افسران فیصل آباد کے سیاستدانوں کی ہر بات نہ ماننے پر کرپٹ قرار دے دیے گئے۔ بظاہر یہ واقعہ ہمارے حکمرانوں کی افتاد طبع کا ایک مظہر تھا۔ افسران کی گرفتار ی اور وزیر اعظم کی سرکٹ ہاوس سے روانگی کے بعد جب مختلف لوگوں سے بات ہوئی تو عقدہ کھلا کہ چوہدری شیر علی جو کہ میاں نواز شریف کے قریبی عزیز ہیں، کا فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ افسروں کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا, چوہدری شیر علی نے افسروں کی وزیراعظم سے شکایت کر دی. جس پر میاں نوازشریف فیصل آباد آئے ان افسران نے اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش کی تو وزیر اعظم ناراض ہوگئے اور درجنوں افراد کی موجودگی میں ان کو ذلت آمیز طریقے سے گرفتار کیا گیا۔یہ واقعہ پاکستان ٹیلی ویژن نے بھی دکھایا۔ اسی معاملے میں سابق اے ڈی سی جی فیصل آباد عارف خان کا بھی نام سامنے آیا تو وزیر اعظم کے حکم پر اسے بذریعہ ہوائی جہاز لاہور سے فیصل آباد لایا گیا۔ مگر ان کو اے زیڈ کے شیردل کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بخش دیا گیا۔ یہی عارف خان بعد وفاقی سیکرٹری داخلہ بھی رہے۔یہ اس دور کا انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا. آپ قانون کے مطابق کسی شخص کو ایف آئی آر کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتے, پولیس سرکاری ملازموں کو ہتھکڑی لگا کر پھنس گئی تھی۔ یہ افسر پانچ ماہ جیل میں رہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان بے گناہ افسران کی گرفتاری کا نوٹس لے کر رہائی کا حکم دیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور عدلیہ کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی۔ عدلیہ اور حکومت کے درمیان ایک ایسا تنازعہ شروع ہوا کہ سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ ہوا اور معاملات دسمبر 1997 میں جسٹس سجاد علی شاہ کو عہدے سے فارغ کرنے پر منتج ہوئے۔ نواز شریف کے اپنے رشتہ داروں پر اس کے بعد بھی انعام و اکرام جاری رہے اور دو ہزار تیرہ میں دوبارہ حکومت بننے پر چوہدری شیرعلی کے بیٹے عابد شیرعلی کو پانی و بجلی کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ قصہ مختصر کہ نواز شریف نے اس واقعے سے سیکھنے کی کوشش نہیں کی اور بعد میں انہیں لوگوں کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھوتے رہے ہیں۔ اسی دور میں ملک بھر میں انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔ اور نیا نظام قائم ہونے کے بعدیہ فیصل آباد کی ہی انٹی ٹیررسٹ کو رٹ تھی، جس نے ملک بھر میں پہلا فیصلہ سنا یا۔ اس فیصلے کی کوریج کا موقع مجھے ملا۔ عدالت کے جج چوہدری محمد اکرام نے ایک لڑکے کو غیر فطری فعل کے بعد قتل کرنے والوں کو سزائے موت دی تھی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں اس وقت ملک میں قائم کی گئی تھیں۔ جب ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اپنے پورے عروج پر تھی۔ جنوری انیس سو ستانوے میں لاہور کی ایک عدالت میں بم دھماکے میں سپاہ صحابہ کے سربراہ ضیا الرحمان فاروقی کے قتل کے بعد تو جیسے پنجاب بھر میں آگ لگ گئی تھی۔ فیصل آباد کے چنیوٹ بازار میں ایک شام جعفری پان شاپ کے مالک کو قتل کیا گیا تو کچھ دن کے بعد اندرون شہر کی ایک مسجد پر دہشت گرد حملہ ہوگیا جس میں کئی جانیں گئیں۔ مذہبی تقسیم کے دونوں طرف حملے ہوتے رہے اور صحافیوں کو اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں۔