خار زار صحافت۔۔۔قسط چھیانوے

0
914

واجپائی کی لاہور یاترا (2)

در آئے ہو تو گھر نہیں آو گے

تحریر محمد لقمان

پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر گوپال سوامی پارتھاسارتھی اور دیگر سفارتی عملہ بھی واہگہ پر پہنچ گیا تھا۔ جوش و خروش کے ایک عجب لمحات تھے۔ وہ کچھ ہونے جا رہا تھا جس کی پاک۔ بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد کسی بھی ساوتھ ایشین کو  امید نہیں تھی۔ اچانک واہگہ بارڈر کے گیٹ سے ایک بس جیسے رینگتی ہوئی پاکستانی علاقے میں داخل ہوئی۔ ہر کوئی الرٹ ہو چکا تھا۔  بس رکی اور بھارتی وزیر اعظم  اٹل بہاری واجپائی بس سے نیچے اترے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ان سے ہاتھ ملا کر استقبال کیا اور بعد میں گلے بھی لگا لیا۔ دو بچوں نے گلدستے بھارتی وزیر اعظم کو پیش کیے۔ بھارتی وزیر اعظم نئی دہلی سے امرتسر ہوائی جہاز کے ذریعے آئے تھے جہاں سے وہ بس میں سوار ہوئے۔ ان کے ساتھ مزید 21 افراد آئے تھے۔ جن میں وزیر خارجہ جسونت سنگھ،  مشرقی پنجاب کے وزیر اعلی سردار پرکاش سنگھ بادل، اداکار شترو گھن سنہا، دیو آنند اور نغمہ نگار جاوید اختر شامل تھے۔ دیو آنند کی چھوٹی چھوٹی چندیائی ہوئی  آنکھوں میں ایک عجب چمک تھی۔ جب سب لوگ بس سے نیچے اتر آئے تو پاکستانی اور بھارتی وزرائے  اعظم نے میڈیا کے لئے دوبارہ مصافحہ کیا جو کہ ایک منٹ کے قریب جاری رہا۔ اس تصویر میں وزرائے اعظم کے علاوہ بھارتی پنجاب  کے وزیر اعلی سردار پرکاش سنگھ بادل اور دیوآنند بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم کے بھائی اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف تقریب میں موجود تو تھے۔ مگر وہ زیادہ تر لو پروفائل میں ہی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے پہلے بس پر صرف واہگہ بارڈر کو کراس کرکے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرنی تھی۔ مگر بعد میں نواز شریف نے بڑا تاریخی فقرہ ، در تک آئے تو گھر نہیں آو گے کیا، کہا تو بھارتی وزیر اعظم نے لاہور آنے پر آمادگی ظاہر کی اور دورہ دو روز طویل ہوگیا۔ بھارتی وفد کی اگلی منزل لاہور میں گورنر ہاوس تھا۔  چونکہ جماعت اسلامی نے واجپائی کے دورے کے دوران احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔ اس لیے سخت حفاظتی انتظامات میں وفد کے ارکان کوگورنر ہاوس پہنچا دیا گیا۔ اگلے دو دن کی سرگرمیاں گورنر ہاوس کے علاوہ شاہی قلعہ اور مینار پاکستان کے احاطے میں ہی تھیں۔ جہاں پر پاکستانی تینوں افواج کے سربراہان کے علاوہ تمام سینیر حکام اور ممتاز سیاست دان بھی موجود تھے۔

( جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here