خار زار صحافت۔۔۔قسط چھہتر

0
1384

ظہرانے اور عشائیے
تحریر: محمد لقمان

ایک دن کے لئے اسلام آباد کے نواح میں واقع سیاحتی مقام مری گئے تو بھوربن کے پی سی ھوٹل میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ انیس سو ستانوے میں پی سی بھوربن جانا ہر کسی خواہش ہوتی تھی۔ لاہور اور کراچی کے پی سی ھوٹلز میں جانے کا تو سینکڑوں دفعہ اتفاق ہوا تھا۔ مگر پہاڑوں کے بیچوں بیچوں واقع فائیو اسٹار ہوٹل میں لنچ کرنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ تاجکستان، کرغستان ، ترکمانستان اور ترکی سے آئے صحافی بھی مری اور بھوربن کے قدرتی حسن کی تعریف کیے بغیر رہ نہ سکے۔ مری سے شام کو واپس اسلا م آئے تو اگلے دو روز میں کئی ظہرانے اور عشائے انتظار کر رہے تھے۔ ایک عشائیہ اس لیے بڑا اہم تھا کہ وہ اے پی پی کی طرف سے دیا جا رہا تھا۔ مگر ایک دم ہی این این آئی نیوز ایجنسی کے مالک حافظ عبدالخالق وزیر اطلاعات مشاہد حسین کی مشاورت سے خود میزبان بن گئے ۔ اے پی پی کی مینجمنٹ کے لئے یہ معاملہ اچانک اور پریشان کن تھا۔ مگر چونکہ وزیر اطلاعات کی اشیر باد سے ایسا ہوا تھا۔ اس لیے سب خاموش ہی رہے۔ میلوڈی کے پاس اسلام آباد ہوٹل میں ہونے والے عشائیے میں زیادہ تر حافظ عبدالخالق اور مشاہد حسین سید ہی خطاب کرتے رہے۔ اس کے بعد ایک اور عشائیہ وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے دیا۔ جس میں وزارت اطلاعات کے سینیر افسران بھی آئے۔ اس کھانے میں وزیر اطلاعات نے اے پی پی کی طرف سے ورکشاپ کی صور ت میں پاکستان کے سافٹ امیج کو ابھارنے پر ڈی جی ایم آفتاب کی بہت تعریف کی۔ ورکشاپ کے باقی ایام میں سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے ورکشاپ کے شرکا کو ای سی او تنظیم میں پاکستان میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بریفنگ دی۔ شمشاد احمد خان کا ای سی او سے ایک اہم رشتہ رہا ہے۔ وہ ای سی او کے سیکرٹری جنرل کے طور پر تہران میں تعینات رہ چکے ہیں۔ جب انیس سو ترانوے میں مجھے ڈویلپمنٹ جنرنلزم کی ایک ورکشاپ میں شرکت کے لئے تہران جانے کا موقع ملا تو وہ اس وقت ای سی او کے سیکرٹری جنرل تھے۔ پاکستان کے ایران میں اسوقت کے سفیر نجم الدین شیخ نے شمشاد احمد خان سے ملوانے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔ انہی دنوں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے چیرمین میاں محمد جاوید نے اقتصادی تعاون کی تنظیم کے دس رکن ممالک کے درمیان ٹیلیفونک رابطے بڑھانے کی کوششوں پر لیکچر دیا ۔ مختلف اخبارات کے دفاتر میں بھی جانے کا موقع ملا۔ ان میں ایک یاد گار ملاقات انگریزی اخبار دی نیوز کی ایڈیٹر ملیحہ لودھی سے تھی۔ ان کے آرٹیکلز بہت سارے پڑھے تھے۔ مگر ان سے ملاقات پہلی تھی۔ دی نیوز کے دفتر میں گئے تو دیکھا کہ ایک کرسی پر درمیانی عمر کی خاتون سگریٹ پیتے ہوئے دھویں کے چھلے اڑا رہی تھی۔ غیر ملکی صحافی خصوصا ترکی سے تعلق رکھنے والی مریم تو بہت متاثر ہوئی کہ پاکستان جیسے کنزرٹیو ملک میں بھی ایسی خاتون ہے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ملیحہ لودھی کے ساتھ سید طلعت حسین بھی موجود تھے۔ جو کہ اس وقت دی نیوز اسلام آباد کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ میری اور طلعت حسین کی قریباً دس سال کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ہم دونوں قائد اعظم یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے شعبے ایک سال اکٹھا گذار چکے ہیں۔ دی نیشن گئے تو فہد حسین سے ملنے کا موقع ملا۔ تئیس سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ مگر ابھی تک سب کچھ ذہن میں تازہ ہے۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here