خار زار صحافت۔۔۔قسط چالیس

0
2550

 

تہران میں نماز جمعہ ، کیراج کی سیر

تحریر: محمد لقمان

سترہ ستمبر انیس سو ترانوے کو ترقیاتی صحافت کی ورکشاپ کا ایک ہفتہ گذر گیا تھا۔ جمعے کا روز تھا۔ ایرانی کوآرڈینیٹر محمود جون نے صبح سویرے ہی  شرکا کو بتا دیا کہ آج جمعے کی نماز پڑھنے  دانشگاہ تہران یعنی تہران یونیورسٹی کی گراونڈ میں جائیں گے۔  بسوں میں بٹھا کر یونیورسٹی گراونڈ میں لے جایا گیا جہاں ہزاروں افراد پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ اگلے قطاروں میں ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولائتی بھی نظرآئَے۔ ورکشاپ کے ایرانی اور غیر ملکی شرکا کو نماز کے لئے تیسری اور چوتھی سطر میں جگہ ملی۔ تھوڑی  دیر کے بعد پچھلی قطار سے کچھ آوازیں سنائِی دیں جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ وہ تو غیر مسلم ہے۔۔اسے نماز پڑھنے پر مجبور نہ کیا جائَے۔ مڑ کر دیکھا  توکیوبا  کا لیو انگریزی زبان میں اپنے ایرانی میزبانوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ محمود جون کی مدد سے اس کو گراونڈ سے باہر لے جایا گیا۔ اس موقع پر مجھے اپنے بچپن کا مولوی جپھا یاد آگیا جو نماز کے وقت  بازار سے گذرنے والے ہر شخص کو جپھا ڈال کر مسجد کے اندر صف میں کھڑا کردیتا تھا۔ یہ سب کام بلا لحاظ مذہب اور فرقہ ہوتا تھا۔کئِ مرتبہ غیر مسلموں کو بھی صف پر کھڑا ہونا پڑ جاتا تھا۔ یوں تہران کے اس مولوی جپھے کی وجہ سے کیوبا کا صحافی ایک عجیب کیفیت کا شکار ہوگیا تھا۔ نماز سے پہلے امام نے فارسی  اور عربی زبان میں خطبہ دیا۔ اس دوران کچھ نوجوان مٹی کی گول ٹکیاں لے کر آگئے اور ہر نمازی کی سجدے والی جگہ پر رکھ دیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ ٹکیاں خاک کربلا کی بنی ہوئی ہیں ۔ اگلے روز تہران سے کچھ  فاصلے پر کوہ البرز کے دامن میں واقع  کیراج کے شہر لے جایا گیا۔ اس زمانے میں کیراج تہران کا نواحی قصبہ سمجھا جاتا تھا۔ اور صنعتی یونٹس اور فلم اسٹوڈیوز کی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت تھی۔ مگر اب  یہ  ایک الگ صوبے میں شامل ہے۔ فلم سازی کے مراکز کی وجہ سے اس کی وہی حیثیت تھی جیسی بھارت میں ممبئی اور پاکستان میں لاہور کی ہے۔ کیراج پہنچے تو وہاں ایک ٹیلی فلم امام علی کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ جس میں حضرت علی کے دور کا مدینہ شہر دکھایا گیا تھا۔جس  میں مسلمانوں کے دو گروہوں میں جنگ کے مناظر کی عکس بندی ہو رہی تھی ۔ایک ایرانی میزبان نے پوچھا کہ فلم بنانے کی ٹیکنیک کیسی ہے تو میں نے بتایا کہ تیکنیکی لحاظ سے تو فلم بہت اچھی ہے ۔ مگر اگر یہ پاکستان یا کسی اور سنی اکثریت والے ملک میں دکھائِی گئی تو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ بہرحال ایران کے ٹیلی وژن پر یہ فلم 1997 اور 1998 میں دکھاِئی گئی اور بہت مقبول ہوئی۔  کیراج میں سنمیٹو گرافی دیکھنے کو ملی تو  سرکاری اخبار اطلاعات میں چار رنگ میں چھپائِی کی سہولت سے آگاہی ہوئِی۔ ان دنوں پاکستان کے اکثر  اخبارات بلیک اینڈ وائٹ ہی تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here