غلام اسحاق خان اور لاما کا بچہ
تحریر: محمد لقمان
اے پی پی لاہور میں ملنے والی بیٹس بظاہر تو بہت معمولی تھیں۔ خصوصاً لاہور چڑیا گھر، عجائب گھر، میونسپل کارپوریشن اور ایل ڈی اے سے دن میں کتنی بڑی خبریں مل سکتی تھیں۔ لیکن میں نے سر جھکا کر کام جاری رکھا تو کئی ایسی خبریں بھی مل گئیں جو کہ اخبارات کے فرنٹ پیج کی زینت بنیں۔ ایک دن میں ڈائریکٹر زو کرنل ظفر احمد کے پاس بیٹھا تھا تو انہوں نے بتایا کہ لاہور چڑیا گھر میں لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے اونٹ نما جانور لاما نے بچے کو جنم دیا ہے۔ اور یہ پاکستان میں کسی بھی لاما نے پہلا بچہ دیا تھا۔ میری یہ خبر اے پی پی کے ذریعے جنگ سمیت مختلف اردو اور انگریزی اخبارات میں چھپی۔ جس دن یہ خبر چھپی تو اسی دن اس دور کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان لاہور آئے۔ صحافیوں سے ملاقات ہوئی تو کسی نے پوچھا کہ جناب صدر آپ لاہور کے صحافیوں کو کون سی بڑی خبر دیں گے تو غلام اسحاق خان نے کہا کہ کیا یہ خبر کافی نہیں کہ لاما نے بچہ دیا ہے۔ صدر پاکستان کا یہ بیان اگلے دن اخبارات میں چھپا تو اے پی پی کے بیورو چیف سلیم بیگ نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ یہ ایک بڑا اعزاز ہے کہ صدر پاکستان نے ایک بظاہر بہت معمولی خبر پر تبصرہ کیا۔ لاہور چڑیا گھر میں ایک بڑا اسکینڈل بھی انہیں دنوں منظر عام پر آیا ۔ وہ لاہور زو کے ایک ادھیڑ عمر ملازم نوروز خان اور اس کے خاندان کے متعلق تھا۔ خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان چڑیا گھر کے مختلف جانوروں کو مارتا اور بعد میں ان کی کھال میں بھوسہ بھروا کر مہنگے داموں بیچ دیتا۔ خاص طور پر کئی شیر بھی ان کے لالچ کا نشانہ بنے۔ جن کی نہ صرف کھالوں میں بھوسہ بھر کر بیچا گیا مگر ان کی چربی بھی ہزاروں روپے فی کلو کے حساب سے حکیموں کو فراہم کی گئی۔ اے پی پی سمیت پرنٹ میڈیا میں آنے والی ان خبروں نے بالآخر اثر دکھایا ۔ جہاں نوروز خان کے خاندان کا لاہور کے چڑیا گھر میں اثر ورسوخ کم ہوا وہیں کرنل ظفر احمد کی جگہ پر ویٹنری ڈاکٹر ارشد ہارون طوسی کو قائم مقام ڈائریکٹر مقرر کردیا گیا۔ لاہورکے چڑیا گھر کی بیٹ کے ساتھ ساتھ اب محکمہ جنگلی حیات اور محکمہ فشریز کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی تھی۔ یوں اب ہر روز کوئی کوئی بٹیر ہاتھ لگنا شروع ہوگیا تھا۔