فیصل آباد۔۔۔زرعی تحقیق و ترقی کا مرکز (۲
تحریر: محمد لقمان
انیس سو ستانوے کے موسم گرما کی ایک صبح مجھے نینشل انسٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینرنگ (نبجی) فیصل آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک کا فون آیا کہ ہمارے پاس چاول کی تحقیق کے دنیا کے سب سے بڑے ادارے سے ایک سائنسدان آئے ہیں۔ ان کے لئے لنچ کا انتظام کیا ہے۔ آپ بھی آجائیں۔ دن بارہ بجے کے قریب میں جھنگ روڈ پر واقع نبجی پہنچا تو وہاں فلپائن میں تحقیقاتی مرکز اری سے آئے ڈاکٹر گوردیو سنگھ خوش موجود تھے۔ جب ڈاکٹر کوثر ملک نے ان کو میرے بارے میں بتایا کہ میں ایک صحافی ہوں اور زراعت پر لکھتا رہتا ہوں تو ڈاکٹر خوش بڑے تپاک سے ملے۔ میں زندگی میں پہلی مرتبہ ایک مونے سکھ سے ملا تھا۔ جس نے نہ تو سر پر پگڑی باندھ رکھی تھی اور نہ ہی داڑھی اور کیس تھے۔ درمیانی عمر کا ایک سمارٹ شخص ۔ایک گورا چٹا پنجابی جس نے چاول کی ہائبرڈ اقسام کی تیاری میں اہم کردار ادا کرکے دنیا کو حیران کردیا تھا۔ کھانے کی میز پر انہوں نے بتایا کہ منیلا میں واقع ادارے اری میں کیسے چاول پر تحقیق کر رہے ہیں ا ور اس سلسلے میں اری پاکستانی سائنسدانوں کے ساتھ کیسے تعاون کر سکتا ہے۔ بھارتی پنجاب کے ضلع جالندھر میں پیدا ہونے والے سائنسدان کو بورلاگ ایوارڈ سمیت متعلق عالمی ایوارڈز سے نواز جاچکا تھا۔ مگر ان کی شخصیت میں مجھے کسی قسم کا تکبر نظر نہ آیا۔ اس کے بعد نبجی میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ جب بھی ڈاکٹر ملک سے ملاقات ہوتی تو کپاس کی کسی نئی ٹرانس جینک قسم کے بارے میں پتہ چل جاتا۔ نیاب اٹھتر اور کرشمہ نامی اقسام کی جینیات بدلنے کے کامیاب تجربے ہوچکے تھے۔ ایک دن مجھے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے ادارے نے کپاس کے کئی کلوگرام ٹرانس جینک بیج پیدا کر لیے تھے۔ مگر حکومت کی طرف سے ان نئی اقسام کے فیلڈ ٹرائلز اور ان کی تجارتی بنیادوں پر کاشت میں دلچسپی نظر نہیں آ رہی۔ انہی دنوں نیوکلیر انسٹی ٹیوٹ اور ایگریکلچر اینڈ بائیالوجی (نیاب) دعوت نامہ آیا کہ وہ صحافیوں کو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قصبے پکا انا میں واقع اپنے بائیو سیلائن ریسرچ اسٹیشن (بی اے آر ایس) لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک صبح میں نیا ب کے سائنسدانوں کے ساتھ شورزدہ زمینوں کے لئے فصلوں کی تیاری کے اس ادارے میں پہنچا تو بڑا حیران ہوا۔ یہاں صرف یوکلپٹس یعنی سفید ہ کی درجبوں نئی اقسام تیار کی گئی تھی۔ جب میں نے سائنسدانوں سے پوچھا کہ اس وقت جب دنیا پانی کی قلت کا باعث بننے والے درخت کی کاشت کو ترک رہی ہے اور بھارت کی صرف ایک ریاست اڑیسہ میں سفیدہ کے لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں سفیدہ کی نئی اقسام تیار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ تو سائنسدان ادھر ادھر باتیں کرتے رہ گئے۔ ایسی تحقیق ابھی بھی کئی زرعی اداروں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹیوٹ میں کپاس کی تحقیق کے ادارے، سی آر آئی میں جانے کا اتفاق بھی ہوتا رہا۔ ایک دن میں میں نے سی آر آئی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وحید سلطان سے پتہ مروڑ وائرس کی وجہ سے کپاس کی فصل میں مسلسل کمی کی وجوہات کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ہر دس سال کے بعد کپاس کی پیداوار میں ایک سیزن میں کمی ہوتی ہے مگر بعد میں پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ انیس سو ستانوے کے بعد دو دہائی سے زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ مگر ابھی تک کپاس کی پیداوار میں بہتری نہیں آئی اور ہر سال ٹیکسٹائل کی صنعت کی طلب پوری کرنے کے لئے کپاس دیگر ممالک سے بھی منگوانی پڑتی ہے۔ پتہ نہیں کہ ہم کب قابل اعتبار تحقیق کرسکیں گے۔