عملی صحافت کا آغاز ۔۔۔لاہور بنا پہلا پڑاو
تحریر: محمد لقمان
22 فروری 1991کی صبح اٹھا تو ماں نے آملیٹ کے ساتھ پراٹھے بھی تیار کر رکھے تھے۔ انہیں فکر تھی کہ کہیں بیٹا نوکری کے پہلے روز ہی بھوکا دفتر نہ جائے۔ ناشتہ کرنے کے بعد جناح کالونی میں واقع نادر کوچ کے اسٹینڈ سے لاہور کے لئے روانہ ہوا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے میں لاہور پہنچ گیا۔ ریلوے اسٹیشن کے پاس واقع کوچ کے اڈے سے رکشہ لیا اور چائنہ چوک میں ایل ڈی اے فلیٹس میں تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد موجود تھا۔ اے پی پی لاہور بیورو کا یہ دفتر میرے لیے نیا نہیں تھا۔ چھ ماہ پہلے میں نے اے پی پی میں بھرتی کے لئے انٹرویو یہیں دیا تھا۔ سب سے پہلا جو شخص مجھے دفتر میں داخلے کے بعد ملا تو وہ نائب قاصد ولی دا د تھا۔ مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے والی داد کی اس وقت عمر تیس سال کے قریب تھی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں اسلام آباد میں ٹریننگ کے بعد لاہور آیا ہوں تو بہت خوش ہوا ۔ مجھے ایڈمن سیکشن لے گیا ۔ جہاں سعید چوہدری آفس سپرنٹنڈنٹ کے علاوہ اشتیاق احمد اور دیگر کلرک حضرات موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے اسلام آباد سے جاری کیے گئے آرڈرز کی کاپی لی ۔ سعید چوہدری مجھے بیورو چیف سلیم بیگ صاحب کے دفتر میں لے گئے۔ سلیم بیگ صاحب سے میر ی دوسری ملاقات تھی۔ انٹرویو کے وقت وہ ڈائریکٹر نیوز ایم آفتاب کے ساتھ موجود تھے۔ فربہ جسم کے مالک بیگ صاحب کو سچ مچ انگریزی زبان پر عبور تھا۔ مجھ سے سفر کا احوال پوچھا ۔ اسی دوران علی عمران اور آمنہ حسن بھی پہنچ چکے تھے۔ بیورو چیف نے چیف رپورٹر دوست محمد یوسفی کو بلایا اور ہمارا تعارف کروایا ۔ انہوں نے بتایا کہ تینوں ٹی جیز رپورٹنگ کریں گے۔ یوسفی صاحب ھال کی دوسری طرف اپنے چھوٹے سے کمرے میں لے گئے اور دیگر رپورٹرز حضرات سے ملوایا۔ لاہور بیورو میں ہم سے پہلے موجود رپورٹرز میں فیض الرحمان صاحب سب سے سینیر تھے۔ وہ کورٹ رپورٹنگ کرتے تھے۔ اس وقت کے محمود احمد خان اور بعد کے میک لودھی کے پاس پیپلزپارٹی کی بیٹ تھی۔ موسمیات کو بھی وہی کور کرتے تھے۔ فیاض چوہدری کامرس رپورٹر تھے۔ قمراللہ چوہدری کے کئی سیاست بیٹس تھیں۔ کرائم اور صحت کی بیٹس مسرت حسین اور تعلیم کی بیٹ ناصر انجم کے پاس تھی۔ سینیر سپورٹس رپورٹر سید فواد ہاشمی ان دنوں اپنی پہلی بیوی کی وفات کی وجہ سے لند ن میں موجود تھے جبکہ سپورٹس کی بیٹ کا خیال ان دنوں جونیر رپورٹر سہیل علی رکھ رہے تھے۔ نثار علوی نے حال ہی میں اے پی پی جائن کی تھی۔ ان سب سے الگ تھلک شخصیت عزیز جمال صاحب کی تھی جو کہ بھارت میں اے پی پی کے نمائندے رہ چکے تھے۔ ساٹھ سال کے قریب عمر ہونے کے باوجود فیچر رائٹنگ اور دیگر شعبوں میں بخوبی اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ ڈیسک انچار ج سید آفتا ب گیلانی تھے۔ ان کی معاونت کے لئے سب ایڈیٹرز میں افتخار علوی، پرویز اسلم اور ظہور الدین بٹ موجود تھے۔ گویا کہ اے پی پی لاہور میں صحافیوں کی ایک بڑی جاندار ٹیم موجود تھی۔ رپورٹنگ سیکشن میں اگر چیف رپور ٹر کے بعد اگر کسی کی چلتی تھی تو وہ تین رپورٹرز ۔۔۔محمود احمد خان ، قمراللہ چوہدری اور فیاض چوہدری تھے۔ گویا کہ ان رپورٹرز کا بیورو پر راج تھا۔ اس لیے ابتدا میں کسی اہم بیٹ کا ملنا ناممکن تھا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد مجھے چار ادارے ۔۔۔یعنی لاہور زو، میوزیم ، ایل ڈی اے اور میٹروپولیٹن کارپوریشن بیٹس کے طور پر دیے گئے۔ علی عمران کی خواہش پر اسے سپورٹس رپورٹر کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔جب کہ آمنہ حسن جو کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے انگریزی زبان کے پروفیسر شعیب بن حسن کی صاحب زادی تھیں۔ کو جنرل رپورٹنگ اور فیچر رائٹنگ کی ذمہ داری دے دی گئی۔ نئے ٹی جیز اسی صورتحال کا سامنا کر رہے تھے جو کہ ایک بھری ہوئی ٹرین کی کسی بھی بوگی میں داخل ہونے کے لئے نئی سواری کو کرنی پڑتی ہے۔
(جاری ہے(