خار زار صحافت۔۔۔قسط اڑتالیس

0
1858
Ayub Agricultural Research Institute (AARI) Faisalabad that was supposed to be part of Faisalabad Science City in 1994.

فیصل آباد میں سائنس سٹی کا منصوبہ
تحریر: محمد لقمان
پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد کو ایک بڑے گاوں سے شہر میں بدلنے میں اگر کسی بیوروکریٹ کا زیادہ کردار نظر آتا ہے تو وہ انیس سو نوے کی دہائی میں یہاں تعینات کمشنر تسنیم ایم نورانی تھے۔۔ انیس سو چورانوے میں اے پی پی فیصل آباد میں پوسٹنگ کے دوران ان سے ملنے کا کئی بار موقع ملا۔ بڑی حلیم طبیعت کے شخص ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ فیصل آباد کے علاقے جھنگ روڈ پر ایک سائنس سٹی بنانے کا منصوبہ بن رہا ہے۔ اس شہر علم کی حدود میں ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(ایری)، نیوکلیر انسٹیٹوٹ آف ایگریکلچیر اینڈ بائیولوجی (نیاب)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجیرنگ (نبجی) اور جھنگ روڈ پر زرعی یونیورسٹی کے تجرباتی فارمز کو شامل ہوتا تھا۔ ان سب اداروں میں موجود سائنسدانوں کی اکثریت زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے فارغ التحصیل تھی۔ اس لیے تحقیق و ترقی کی ایک پوری ویلیو چین نئے قائم ہونے والے شہر میں موجود ہونی تھی۔ میں تسنیم ایم نورانی سے گفتگو کی بنیاد پر فیصل آباد سائنس سٹی پر ایک فیچر تحریر کیا جو کہ کئی انگریزی اخبارات میں چھپا۔ آج تقریبا ً چھبیس سال کے بعد اس منصوبے کے بارے میں سوچتا ہوں کہ تو پتہ نہیں فیصل آباد میں تجویز کردہ شہر کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ کبھی اس کا ذکر تک نہیں ہوا۔ اس کے برعکس زرعی کالج لائلپور کے بطن سے پیدا ہونے والی مشرقی پنجاب کی لدھیانہ زرعی یونیورسٹی اپنی تحقیق و ترقی کے عمل کی وجہ سے بھارت میں مختلف فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کر چکی ہے۔ مگر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی تحقیق سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ بات ہو رہی تھی کمشنر فیصل آباد کی۔فیصل آباد میں تعیناتی کے دوران تسنیم نورانی کا ایک بڑا کام ٹانگے اور فورڈ ویگنز کی جگہ پر جدید منی بسوں کو متعارف کروانا تھا۔ اس کے لئے ایک ادارہ فیصل آباد اربن ٹرانسپورٹ سسٹم قائم کیا گیا۔ فٹس کا بڑا ٹرمینل علامہ اقبال روڈ پر قائم کیا گیا۔ اب پتہ نہیں وہاں کیا تعمیر ہوا ہے۔ کیونکہ منی بس کی جگہ بس نے لے لی ہے۔ اس وقت وفاقی حکومت کی وزارت اطلاعات اور نشریات کے ادارے پی آئی ڈی کا ایک دفتر تھا۔ جہاں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات تھا۔ جبکہ پنجاب حکومت کے ڈی جی پی آر کا ایک ذیلی دفتر ضلع کونسل کمپلکس کے اندر ہی موجود تھا۔ رانا محمد بشیر جو کہ بڑے سادہ اور ملنسار تھے۔ وہ وہاں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے اور ان کی معاونت محمد سبحان علی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کرتے تھے۔ بڑی اچھی جوڑی تھی۔ ان کی وجہ سے صحافیوں کو ہمیشہ سہولت ہی ملی تھی۔ رانا صاحب کی سرکاری گاڑی کا نمبر ایل ایچ وی سیریز کا تھا۔ اس لیے اس مناسبت سے کئی صحافی ان سے شغل کرتے رہتے تھے۔ مگر وہ ہمیشہ ایک آنکھ دبا کر اس بات کو ٹال دیتے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here