خار زار صحافت۔۔۔قسط اٹھانوے

0
838

اعلان  لاہور۔  پاک۔ بھارت  تعلقات  میں  ایک  اہم  سنگ  میل

تحریر:  محمد  لقمان

اٹل  بہاری  واجپائی  کے  دورہ  پاکستان  کا  حاصل  اعلان  لاہور  یا  لاہور  ڈیکلریشن  تھا۔  جس  پر  اکیس  فروری  انیس  سو  ننانوے  کو  گورنر  ہاوس لاہور  میں  پاکستان اور  بھارت  کے  وزرائے  اعظم  نے  دستخط  کیے۔  معاہدے  پر  دستخط  سے  پہلے  مذاکرات  کے  تین  ادوار  ہوئے۔   اگر  ایمانداری  سے  اس  وقت  کی  صورت  حال  کا  جائز ہ  لیا  جائے  تو  یہ  دستاویز  اہمیت  کے  لحاظ  سے   کسی طور  پر  بھی  معاہدہ  شملہ  سے  کم  نہ  تھی۔  بھارت  جو  کہ  انیس  سو  اسی  اور  نوے  کی دہائیوں   میں   بار بار  کشمیر  کو  اٹوٹ  انگ  کہتے ہوئے مذاکرات  سے انکاری تھا۔  اعلان لاہور  کے  تحت  اب مسئلے پر  تعمیری  بات  چیت  کرنے کو  تیار  ہوگیا  تھا۔   اعلان  لاہور  کے  مندرجہ  ذیل  چیدہ  چیدہ  نکات    تھے۔

16 نکات پر مشتمل یہ ڈیکلریشن دونوں ملکوں کے خوشحال مستقبل، خطے میں امن اور استحکام، دونوں ملکوں کے عوام میں دوستانہ اور برادرانہ تعلقات اور تعاون کے عزم کے اظہار سے شروع ہوا تھا۔

جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کہاگیا تھا کہ جوہری صلاحیت دونوں ملکوں پر یہ اہم ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ دونوں ملک مسلح تصادم سے بچیں۔

اس معاہدے میں شملہ معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنے کا اعادہ بھی کیا گیا تھا۔

لاہور ڈیکلریشن میں 28 ستمبر1998 کے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہاگیا تھا کہ امن اور استحکام دونوں ملکوں کے عظیم ترین ملکی مفاد میں ہے اور جموں اور کشمیر سمیت تمام مسائل کو حل کرنا اس مقصد کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

اس ڈیکلریشن میں یہ بھی کہاگیا تھا کہ دونوں ملک جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دیں گے۔

اس میں یہ بات بھی کی گئی تھی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں گے۔

 لاہور اعلامیہ میں مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں یہ کہا گیا کہ دونوں حکومتوں کی جانب سے وزرائے خارجہ وقتاً فوقتاً ملاقات کریں اور ایک دوسرے کی باہمی رضامندی سے عالمی ادارہ برائے تجارت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ضمن میں پیش رفت پر باہمی مشاورت سے اقدامات اٹھائیں گے تاکہ جنوبی ایشیا میں معیشت پروان چڑھے۔ اس کے علاوہ دو رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو خطے میں انسانی حقوق، شہری حقوق اور گمشدہ جنگی قیدیوں سے متعلق مشکلات اور حالات کا جائزہ بھی لے گی۔  

اعلان  لاہور   کی  عالمی  سطح  پر  بہت  زیادہ  پذیرائی  ہوئی۔  مگر  پاکستان  اور  بھارت  کی  کئی  دائیں  بازو  کی  پارٹیوں  نے  حسب  معمول  مخالفت  کی۔   دو  روز ہ  دورے  کے بھارتی  وزیر  اعظم  اٹل  بہاری  واجپائی  اچھی  امیدوں  کے  ساتھ  واہگہ  پار  چلے  گئے۔  مگر  دونوں  ممالک  کی  سیاسی  قیادت  کو  شاید  یہ  اندازہ  نہیں  تھا  کہ  آنے  والے دنوں میں  جنوبی  ایشیا  میں  کچھ  اور  ہی  ہونے والا تھا۔

جاری  ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here