بوسنیا پر اسلامی کانفرنس کا اجلاس
تحریر: محمد لقمان
نواز شریف کے پہلے دور کے اختتامی دنوں میں اسلام آباد میں سربوں کے ظلم و ستم کے شکار یورپی اسلامی ملک بوسنیا ھرزیگوینا پر قائم او آئی سی کے رابطہ گروپ کا اجلاس ہوا۔ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد اس کے دیگر صوبے تو آزاد ہوچکے تھے۔ مگر بوسنیا کی آزادی کو بڑا صوبہ سربیا تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اور بوسنیائی مسلمانوں کو ہر طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہونے والے اجلاس کی کوریج کے لئے اے پی پی نے لاہور اور کراچی سے بھی رپورٹرز بلائے۔ لاہور سے مجھے اور بیورو چیف سلیم بیگ صاحب کو بلایا گیا۔ ایک بڑا دلچسپ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پی آئی اے کا جہاز جو کہ لاہور سے اسلام آباد کے درمیان پرواز میں تھا، ایر پاکٹ میں پھنس گیا۔ جہاز نے ہچکولے کھائے تو تمام مسافر خوف کا شکار ہوگئے اور ہر طرح دعائیں پڑھنے لگے۔ سلیم بیگ صاحب نے ایک دم میرے کان میں کہا کہ اگر وہ مر جائیں تو ان کی اہلیہ اور بچوں کو فلاں فلاں پیغام دینا ہے۔ یہ بات سن کر مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے بیگ صاحب سے کہا کہ یہ کوئی بس یا ٹرین کا حادثہ نہیں ہوگا جس میں وہ مر جائیں گے اور میں بچ جاوں گا۔ اس میں تمام مسافر بچ جائیں گے یا مر جائیں گے۔ تیسری آپشن کوئی نہیں ہوگی۔ میری بات سن کر سلیم بیگ صاحب نے سر کو ہلایا اور کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ اسلام آباد میں ہمیں آبپارہ چوک میں ایمبیسڈر ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ صبح دفتر گئے تو وہاں کراچی سے شجاع الدین قریشی بھی آچکے تھے۔ رات کو مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ نے آنا تھا۔ اے پی پی کو اسلام آباد ایرپورٹ لے لاونج میں رسائی کے لئے خصوصی پاس جاری کیے گئے تھے۔ رات کو میں اور شجاع الدین ایرپورٹ پہنچے تو ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولائتی، انڈونیشیا کے علی الاطاس اور بوسنیا کے حارث سلاجک سے بات کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ڈاکٹر علی اکبر ولائتی سے بہت لمبا سوال کیا تو وہ پہلے مسکرائے اور پھر کہا کہ سوال چھوٹا کریں تاکہ وہ جواب دے سکیں۔ تینوں وزرائے خارجہ نے بتایا کہ ان کے ملک بوسنیا کے مسئلے کے حل کے لئے کیا چاہتے ہیں۔ باقی وزرائے خارجہ نے صبح کے وقت اسلام آباد پہنچنا تھا۔ جن کو اسلام آباد کے رپورٹرز نے کور کرنا تھا۔ ہم ان تینوں وزرائے خارجہ کا انٹرویو کرکے اے پی پی ہیڈکوارٹرز واپس پہنچے تو تہجد کا وقت ہوچکا تھا۔ دفتر میں ٹیلی پرنٹر آپریٹرز اور سب ایڈیٹرز سب سوئے ہوئے تھے۔ اس لیے تمام تر جلد بازی کے باوجود بھی صبح کو ہی خبر اخبارات ، پی ٹی وی ، ریڈیو اور غیر ملکی نیوز ایجنسز کو جاسکی۔ وزیر اعظم نواز شریف اجلاس کی افتتاحی تقریب میں آئے تو سیاسی تناو کی وجہ سے ان کے چہرے پر پریشانی تھی۔ بہرحال انہوں نے کانفرنس سے خطاب کیا ۔ باہر آئے تو میڈیا سے بھی مختصر گفتگو ہوئی۔ وہ دور بہت اچھا تھا کہ نہ تو الیکٹرونک میڈیا کے جتھے تھے اور نہ ہی دھکے پڑتے تھے۔ زبانی کلامی بات ہوتی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف روانہ ہوئے تو پورا میڈیا بھی ہال سے باہر آچکا تھا۔ کتنا آسان اور پرسکون دور تھا۔