خارزار صحافت ۔۔۔۔قسط چوبیس

0
2564

بھیرہ کیسے ڈوبا

تحریر : محمد لقمان

دریائے جہلم نے ضلع سرگودھا میں جس شہر کو زیادہ ڈبویا۔ وہ تاریخی شہر بھیرہ تھا۔ اس قصبے کی گلیوں میں کئی روز تک پانچ سے چھ فٹ بلند پانی کھڑا رہا تھا۔ بھیرہ شہر کے اکلوتے ٹیلیفون ایکسینچ کی مشینری پر تقریبا ً سات فٹ کی بلندی تک مٹی کے نشان نظر آئے جو کہ سیلابی پانی کی وجہ سے تھے۔ بھیرہ کی تنگ گلیوں میں حکیم ایرانی نامی شخص سے ملاقات ہوئی جو سیلاب کا ذکر ہوتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کیونکہ اس کی زندگی کی تمام متاع سیلابی پانی کی نذر ہوچکی تھی۔ بھیرہ میں پورا دن گذارا اور واپس سرگودھا اپنے ھوٹل پہنچا۔ تو لاہور بیورو سے سرگودھا کی صورت حال پر فیچر لکھنے کی فرمائش آگئی۔ مگر جھنگ کے اٹھارہ ہزاری، سرگودھا اور بھیرہ کی تباہی کے بارے میں فیچر لکھنے کا موقع لاہور واپس جا کر ہی ملا۔ تین چار دن مالبرو ہوٹل میں رہ کر سرگودھا کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کے چکر لگا کر معلومات اکٹھی کرتا رہا اور ان کی بنیاد پر ہر روز ٹیلیکس کے ذریعے لاہور خبر بھیجنے کا عمل جاری رہا۔ سرگودھا کی صورت حال کی ہر پہلو سے خبر دے ڈالی تو دریائے جہلم کے پانی سے متاثرہ دوسرے ضلع خوشاب جانے کا ٹھان لیا۔ ضلع کا نام تو خوشاب ہے۔ مگر ضلعی ہیڈکوارٹرز اس سے سات آٹھ کلومیٹر دور شہر جوہر آباد میں ہے۔ یہ شہر ایک ماسٹر پلان کے تحت 1953 میں آباد کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب کراچی سے دارالحکومت کو منتقلی کا سوچا گیا تو پہلی ترجیح جوہر آباد تھی۔ مگر بعد میں پوٹوہار میں اسلام آباد کے نام سے شہر آباد کردیا گیا۔ ستمبر 1992 میں میں جب جوہر آباد پہنچا تو بس اڈے کے پاس ایک اچھا ہوٹل جس کا نام شالیمار ہوٹل تھا، میں کمرہ مل گیا۔ سیلاب کی وجہ سے چونکہ ملک کے دیگر حصوں سے بہت کم افراد جوہرآباد میں آ رہے تھے۔ اس لیے ہوٹل میں چند کمروں میں ہی مہمان تھے۔ ایرکنڈیشنڈ کمرہ صرف ستر روپے فی نائٹ ملا۔ اس زمانے میں بھی یہ بہت کم کرایہ تھا۔ مگر رات کو جب ڈنر کے لئے ڈائننگ ہال میں پہنچا تو صرف میرے لیے ہی ڈنر موجود تھا۔ تو جل فریزی کا پورا ٹرے میری میز پر رکھ دیا گیا۔ میں نے کھانے کے بعد بل پوچھا تو بیرا چار سو روپے کا بل لے آیا۔ گویا پنجابی محاورے کے مطابق پیسے دی گڈی تے ٹکا سر منڈوائی۔ گویا کہ ہوٹل والوں نے کسر نکال لی تھی۔ اگلی صبح میں نے ناشتہ ہوٹل سے دور ایک ڈھابے سے کیا اور مزید دو روز کے قیام کے دوران بھی اس ہوٹل کے ڈائننگ روم کا رخ نہیں کیا۔  خوشاب میں سیلاب نے کتنی تباہی مچائی تھی اس کا پتہ تو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جا کر ہی چلا۔ اس زمانے میں ضلع خوشاب کے ڈپٹی کمشنر چوہدری رفیق گل تھے۔ بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ بھی فیصل آباد کے رہنے والے تھے اور ان کا گھر اس وقت کے پوش علاقے پیپلزکالونی میں تھا۔ فیصل آباد کا ڈاکخانہ ملا تو انہوں نے سیلابی علاقے کے دورے کے لئے میرے ساتھ ایک تحصیلدار راجہ نصراللہ بھیج دیا۔ جنہوں نے اپنے بیٹے کو جیپ میں مجھے خوشاب کے متاثرہ علاقوں میں لے کر جانے کو کہا۔  راجہ نصراللہ کا بیٹا حامد نصراللہ وقت بیس بائیس سال کا نوجوان تھا اور محکمہ رینویو میں تازہ تازہ پٹواری بھرتی ہوا تھا۔ خوشاب کے دیہاتی علاقے میں ہر طرف تباہی ہی نظر آئی۔ ڈھاک نامی گاوں میں گئے تو وہاں ریلوے ٹریک ایسے دکھائی دیا جیسے کسی جن نے اس کو مروڑ دیا ہو۔ پورا دن سیلاب زدہ علاقوں میں گذار کر واپس شالیمار ہوٹل آیا۔ اس سے اگلا دن بھی جوہر آباد میں گذارا اور رفیق گل صاحب سے الوداعی ملاقات کی اور واپس سرگودھا آگیا۔ سرگودھا میں مزید ایک ہفتہ بڑی مشکل سے رہا۔ بالآخر بیورو چیف نے لاہور واپسی کے لئے اجازت دے دی۔ یوں میری صحافتی زندگی کے پہلے سیلاب کی کوریج مکمل ہوچکی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here