کیسے کیسے استاد ملے
تحریر: محمد لقمان
تقریباً ایک مہینہ تک اے پی پی ھیڈ کوارٹرز میں موضوعاتی تحریروں میں تربیت ، خبر نویسی پر لیکچرز اور مختلف اداروں کے دورے اور بریفنگز جاری رہیں۔ اس کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کے چار اخباروں۔۔۔نوائے وقت، جنگ ، دی مسلم اور پاکستان ٹائمز میں ایک مہینے کے لئے ٹرینی جرنلسٹس کو تربیت کے لئے بھیجا گیا۔ اس کے لئے پانچ پانچ افراد کے گروپ بنائے گئے۔ ہر گروپ ایک ہفتے کے لئے ایک اخبار کے نیوزروم میں کام کرتا اور اے پی پی کی خبروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا جائزہ لیتا ۔ اس وقت جنگ اور نوائے وقت کے دفاتر راولپنڈی میں تھے۔ نوائے وقت گئے تو وہاں اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر طارق وارثی صاحب نے اخبار کے لئے خبریں اکٹھی کرنے سے چھاپنے تک کے عمل پر بریفنگ دی۔ ایک ہفتہ تک نیوز روم میں اخبار کے سب ایڈیٹرز کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑا۔ اس زمانے میں کسی نیوز ایجنسی کی اردو سروس نہیں تھی۔ اس لیے وہاں نصب اے پی پی کے ٹیلی پرنٹر سے نکلنے والی کریڈ کو اردو میں ٹرانسلیٹ کرنے کا موقع ملا۔ ایک ہفتہ نوائے وقت میں گذارنے کے بعد ایک ہفتہ راولپنڈی میں ہی کمیٹی چوک کے قریب جنگ کے دفتر میں تانے کا موقع ملا۔
آج جو مجھ سمیت 1990 کے بیچ کے ارکان میں جو اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو میں ترجمے کی صلاحتیں ہیں۔ اسی دور کی محنت کا ہی نتیجہ ہیں۔ راولپنڈی میں دونوں اردو اخباروں کے بعد اسلام آباد کے انگریزی اخباروں میں ایک ایک ہفتہ کام کرنا پڑا۔ اس وقت دی مسلم اخبار کا ہیڈ آفس آب پارہ چوک میں تھا۔ وہاں ایک سینیر ایڈیٹر حسن رابع صاحب کے زیر نگرانی کام کرنے کا موقع ملا۔ حسن رابع نے ایڈیٹنگ سمبلز کے استعمال اور شستہ انگریزی زبان لکھنے پر تربیت دی۔ ان کی کوشش تھی کہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ سیکھ کر جائے۔ حسن رابع اس وقت ادھیڑ عمر تھے۔ پتہ نہیں اب وہ کہاں ہیں۔ خدا کرے وہ خیریت سے ہوں۔ آخری پڑاو دی پاکستان ٹائمز کا تھا۔ جو کہ اس زمانے میں سرکار کا ترجمان اخبار تھا۔ جب اے پی پی کی خبر کسی اور اخبار نہ چھتی تو پاکستان ٹائمز کی تو ضرورت زینت بن جاتی تھی۔ وہاں پر بھی بڑے کہنہ مشق صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے کئی دہائیاں صحافت میں گذاری ہوئی تھیں۔ دی مسلم کے برعکس پاکستان ٹائمز میں کام کی اتنی سپیڈ نہیں تھی۔ گپ شپ زیادہ تھی۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ اس دوران میں اے پی پی کے ہیڈ آفس میں بھی کلاسز کا سلسلہ جاری تھا۔ ٹریننگ کے سربراہ جلیل احمد کی معاونت کے لئے کراچی بیورو سے صفوان بیگ بھی آچکے تھے۔ جلیل صاحب کے برعکس صفوان بیگ بہت جلد پریشان ہوجاتے تھے۔ کوشش ہوتی تھی کہ ان پر کسی قسم کی غیر ذمہ داری کا الزام نہ آئے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے لیے مسائل پیدا کرتے رہے بلکہ زیر تربیت صحافیوں کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوتی رہیں۔ جلیل احمد صاحب کے کراچی واپس جانے کے بعد تو صفوان بیگ ہی ٹریننگ انچارج بن گئے۔ ذیشان حیدر سمیت کئی ہوشیار ٹی جیز نے استاد بھگاو مہم بھی چلائی مگر وہ تربیت کے اختتام تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔