تربیلا کا لافانی سحر ۔۔قسط سوم

0
3032
Sunset at Tarbela Lake

 

تحریر: محمد لقمان

غازی۔بھروتھہ پاور چینل کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں تو آگے غازی آجاتا ہے۔ جہاں پانی کا ایک بڑا ذخیرہ نظر آتا ہے۔ غازی سے تین سے چار کلومیٹرز اوپر جائیں تو تربیلا آجاتا ہے۔ تربیلا ڈیم کی سب سے پرکشش جگہ اس کی جھیل ہے۔ 25 جنوری کی سہہ پہر جب تربیلا پہنچے تو جھیل کے کنارے واپڈا ریسٹ ہاوس میں ہمیں ٹھہرا دیا گیا ۔ جھیل کے کنارے غروب آفتاب کا نظارہ کرنے میں اپنا ہی مزہ ہے۔ نارنجی ٹکی کی شکل اختیار کرتا ہوا سورج غروب ہوتا ہے تو پورے  افق پر ایک جادو سا چھا جاتا ہے۔ میں تقریباً ایک گھنٹہ جھیل کنارے بیٹھ کر پہلے سمندر اور بعد میں جھیل پر نظر جما کر بیٹھا رہا۔ ایک دم ستائیس سال پہلے کا وقت یاد آیا جب ایک سہہ پہر کو جھیل کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ تمام مناظر دوبارہ آنکھوں کو بس گئے۔ انیس سو نوے کے اے پی پی کے بیچ کے تمام ارکان یاد آئے جو اب تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے ہیں۔ اللہ تعالی سب کو حفظ و امان میں رکھے۔ اس وقت تربیلا پاور اسٹیشن کے رابطہ افسر ذوالفقار جعفری بہت یاد آئے جو جھیل کنارے بھی اپنے شعر سنانے سے نہیں رکے تھے۔ اس بار پتہ چلا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گھر پر ہی وقت گذارتے ہیں۔ اور جسمانی طور پر بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ دوبارہ تربیلا جھیل کی طرف واپس آتے ہیں۔ تربیلا جھیل کا شمار پاکستان کی بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔

 ھیل میں  ساٹھ  لاکھ ایکڑ فٹ سے زائد پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ جھیل میں پانی انتہائی سطح تک اگست کے وسط میں پہنچتا ہے۔ مگر فروری یا مارچ میں یہ بالکل ختم ہوکر ڈیڈ لیول تک آجاتا ہے۔ان دنوں میں پانی ڈیڈ لیول کے بہت قریب ہے۔ تربیلا جھیل کو خوبصورت بنانے میں اس کے ارد گرد کی پہاڑیوں کا بھی بڑا کردار ہے۔جو کئی مقامات پر تو آدھی جھیل میں ڈوبی نظر آتی ہیں۔ جھیل سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔  رات کے کھانے میں روسٹ کی ہوئی مچھلی مل جائے تو کسی اور ڈش کو کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک زمانہ تھا جب تربیلا جھیل پر سیاحوں کو کسی نہ کسی طور پر اجازت مل جاتی تھی۔ مگر ماضی قریب میں دہشت گردی کے واقعات بڑھنے کی وجہ سے  ایسا ممکن نہیں رہا۔ سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ تربیلا کا علاقہ شروع ہونے سے پہلے ہی سیکیورٹی کے سخت انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ تربیلا جھیل کے کنارے ریسٹ ہاوس میں جھیل کے کنارے کھڑے ہو کر سامنے دیکھیں تو آپ کو غلام اسحاق خان انسٹیٹوٹ کی عمارت نظر آتی ہے۔ جو کہ ایک دوسرے ضلع صوابی کے شہر ٹوپی میں واقع ہے۔ لاہور کی لمز یونیورسٹی کے بعد اگر کوئی ادارہ بین الاقوامی طور پر جانا پہنچانا جاتا ہے تو وہ ٹوپی کا جی آئی کے انسٹیٹوٹ ہے جو کہ پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان کے نام سے موسوم ہے۔ رات کے وقت میں جھیل کے کنارے سے یا تو تربیلا پاور ہاوس کی بتیاں نظر آتی ہیں یا جی آئی کے آئی کی عمارت پر لگی لائٹیں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here